ویب ڈیسک : پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج دیہی خواتین کا عالمی دن منایا جارہا ہے،دیہی خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد مختلف شعبوں میں دیہی خواتین کی خدمات کا اعتراف کرنا اورا ن کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔
تفصیلات کے مطابق دیہی خواتین کا عالمی دن منانے کا مقصد مختلف شعبوں میں دیہی خواتین کی خدمات کا اعتراف کرنا اورا ن کے بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔ یہ دن پہلی مرتبہ 15 اکتوبر 2008کو اقوام متحدہ کی قرارداد/136 62 کی منظوری کے بعد منایا گیاتھا جس کے بعد سے ہر سال اس دن کو باقاعدگی سے منایا جاتا ہے
اس دن کے منانے کا مقصد دیہات میں رہنے والی خواتین کی ان کوششوں کا اعتراف کرنا ہے، جن کی بدولت معاشرے اور معیشت میں بہتری پیدا ہو رہی ہے۔ پاکستانی دیہات میں رہنے والی زیادہ تر خواتین کو ’ورکنگ ویمن‘ بھی کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی دیہی عورت صرف گھر اور باورچی خانے کو ہی نہیں دیکھتی بلکہ وہ کھیتی باڑی میں بھی مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہے۔ وہ کپاس چنتی ہے، مویشیوں کو چارہ ڈالتی ہے اور فصلوں کی کٹائی میں بھی مدد کرتی ہے۔ لیکن اس کی یہ ساری محنت نہ تو پاکستان کے جی ڈی پی میں شمار کی جاتی ہے اور نہ ہی اس محنت کا اسے کوئی مناسب معاوضہ ملتا ہے۔ اسے اس مزدروی کے نتیجے میں نہ تو سوشل سیکورٹی کے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور نہ ہی ’میڈیکل کور‘ دستیاب ہوتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کو صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی سمیت دیگر بنیادی سہولتوں کی کمی کا سامنا بھی رہتا ہے۔ دیہی خواتین کی حالت زار میں بہتری کے لیے کئی سالوں سے خدمات سرانجام دینے والی ایک سماجی رہنما اور عورت فاؤنڈیشن کی سینئر اہلکار نبیلہ شاہین کہتی ہیں کہ پاکستان کی دیہی خواتین کو عام طور پر فرسودہ رسم و رواج اور ’جاہلانہ‘ روایات کی وجہ سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ’’عورتوں پر تشدد، ونی، کم عمری کی شادیاں اور جائیداد کے تقسیم ہو جانے کے ڈر سے خواتین کی شادی نہ ہونے دینا جیسے واقعات اس کے علاوہ ہیں۔‘‘
پاکستانی امور ہر تحقیق کرنے والےسینئر استاد ڈاکٹر فیصل باری کا کہنا تھا کہ جو عورتیں تعلیم حاصل کرتی ہیں، ان میں اعتماد آ جاتا ہے جبکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اگر عورت کسی روزگار سے وابستہ ہو جائے تو اس سے اس کو گھر کی فیصلہ سازی میں بھی اہمیت ملنا شروع ہو جاتی ہے اور اس سے ان کے مسائل کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر فیصل باری کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دیہات میں بچوں کے اسکول تو مل جاتے ہیں لیکن بچیوں کے اسکول بہت کم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دیہات میں کالج تو بہت ہی کم ہیں جبکہ ماں باپ بچیوں کو دور بھیجنے کی بجائے اعلی تعلیم نہ دلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے بقول اسکولوں کی کمی اور اسکولوں کے دور واقع ہونے کی وجہ سے اسکولوں سے بچوں کا ڈراپ آوٹ شرح بھی بہت زیادہ ہے، ’’کے پی کے کے علاقے شانگلہ کے ایک گاؤں میں اسکول نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ڈیڑھ ہزار سے زائد بچیاں بچوں کے اسکول جاتی ہیں حالانکہ وہ اسکول مخلوط تعلیم کے لیے منظور شدہ نہیں ہے۔‘‘