بچوں پرجنسی اورجسمانی تشددکے واقعات کی اصل وجہ کیا؟

chaild abuse
کیپشن: chaild abuse
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک : پنجاب میں بچوں پرجنسی اورجسمانی تشددکے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران پنجاب میں 1100 سے زائد بچوں کو جنسی اورجسمانی تشددکانشانہ بنائے جانے کے واقعات سامنے آئے ہیں
جسمانی تشدد کا شکار بننے والے بچوں میں زیادہ تر گھریلو ملازم بچے ہیں، ماہرین کے مطابق کمسن بچوں سے گھریلو ملازمت کروانے کی بڑی وجوہات غربت اوربچوں کی کثیرتعدادہے، انصاف کاحصول مشکل اورمہنگاہونے کی وجہ سے ملزمان رہاہوجاتے ہیں، جنسی تشددکاشکارہونیوالے بچے احساس کمتری کاشکارہوجاتے ہیں،مناسب کونسلنگ نہ کی جائے توایسے بچے جرائم کی طرف راغب ہوسکتےہیں
لاہور کے علاقہ ٹھوکرنیازبیگ میں چندروزقبل حقیقی والدنے اپنے کمسن بچے کو بھوکا پیاسا گھر میں باندھے رکھا اور اس پرتشدد بھی کیا۔ بچے کی سوتیلی ماں اسے رسیوں سے باندھ کر کراچی چلی گئی تھی۔ محلے داروں کی اطلاع پر چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے اس بچے کو تحویل میں لے لیا ہے
پنجاب میں اس طرح کے واقعات معمول بن چکے ہیں ، بچوں کے حقوق سے متعلق کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ساحل کی رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران ملک بھرمیں 1896 بچوں کوجنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔بچوں پر تشدد کے 60 فیصد واقعات پنجاب میں سامنے آئے ہیں۔ پنجاب میں 1141 بچوں پرجنسی اورجسمانی تشددکے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ملک بھرمیں مجموعی طورپرجنوری سے جون 2021 کے دوران بچوں پرجنسی،جسمانی تشدد، بچوں کی گمشدگی اور چائلڈ میرج کے 1896 واقعات سامنے آئے ہیں۔ 2020 کے پہلے 6 ماہ کے دوران 1489 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ 1018 بچوں کوجنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، 523 بچے جسمانی تشدد کا شکار ہوئے، 238 بچے لاپتہ جبکہ 51 بچوں کی شادی کی واقعات سامنے آئے ہیں۔ متاثرہ بچوں میں 53 فیصد یعنی 1013 لڑکیاں ہیں جبکہ 47 فیصد 883 لڑکے ہیں۔ متاثرہ بچوں کی عمریں6 سے 15 سال کے درمیان ہیں۔