(قیصر کھوکھر) پنجاب کی افسر شاہی نواز شریف کی وطن واپسی اور گرفتاری پر واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور پنجاب میں ایک جانب ڈی ایم جی ن کے حامی افسران تھے اور دوسری جانب ڈی ایم جی نگران کے افسران تھے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے نگران نوکر شاہی کو مسلم لیگ ن کے ورکرز کی گرفتاری پر واضح طور پر ڈرانا دھمکانا شروع کیا ۔ نگران نوکر شاہی نے لاہور شہر کو خاص طور پر اور صوبے کو جس انداز میں لاک اپ کیا، اس سے عوام اور عام شہریوں نے برا منایا ہے اور کہا کہ نگران حکومت اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کر رہی ہے، خاص طور پر موبائل سروس کے بعد انٹرنیٹ اور ڈیٹا سروس بند کر کے مقبوضہ کشمیر کی یاد تازہ کی گئی۔
نگران کابینہ جوکہ ایک اناڑی کابینہ تھی جس کو کوئی سوجھ بوجھ نہ تھی، اس نے نگران بیوروکریسی کے کہنے پر لاہور شہر کو مکمل طور پر لاک اپ کیا ۔ نگران وزیر اعلیٰ پروفیسرڈاکٹر حسن عسکری یونیورسٹی میں لیکچر دیا کرتے تھے کہ کسی کو بغیر کسی جرم کے گرفتار کرنا ایک ظالمانہ ا قدام ہوتا ہے اور اب انہوں نے خود ہی اپنے کہے ہوئے قول کی نفی کر دی اور بلدیاتی نمائندے جو گراس روٹ سطح پر عوام کے نمائندے ہوتے ہیں اور ان کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں اور اکثر حلقوں میں امیدواروں کو جتوانے کے لئے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، انہیں بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی قصور کے پابند سلاسل کر دیا اور ان کے گھر کی چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا ۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کےلئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر شہری کو آزادانہ طریقے سے ووٹ کے حوالے سے سوچنے اور ووٹ مانگنے کا حق دیا جائے لیکن نگران حکومت نے الیکشن سے قبل ہی گرفتاریاں شروع کر کے ایک طرح سے اپنے دیئے گئے مینڈیٹ سے تجاوز کیا ہے۔
بلاول بھٹوزرداری کے قافلہ کو اچ شریف جانے سے روکا گیا تو الیکشن کمیشن فوری طور پر متحرک ہوا لیکن لاہور شہر میں ڈی سی لاہور کیپٹن (ر) انوار الحق نے سینکڑوں بلدیاتی نمائندوں کی نظر بندی کے احکامات جاری کئے لیکن نہ تو وفاقی حکومت ٹس سے مس ہوئی اور نہ ہی الیکشن کمیشن نے مداخلت کی ۔ اطلاعات کے مطابق ابھی تک 141 بلدیاتی چیئرمین اور وائس چیئرمین کوٹ لکھپت جیل میں نظر بند ہیں۔ نگران ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) نسیم نواز نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو اختیارات منتقل کئے ہیں کہ وہ اپنے طور پرکسی کو ایک ماہ تک نظر بند کر سکتے ہیں۔
نگران افسر شاہی اور نگران کابینہ نے مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے نواز شریف کے حق میں ریلی نکالنے میں رکاوٹیں ڈالیں اور مسلم لیگ ن کے قافلوں کو راوی پل، شاہدرہ، ٹھوکر نیاز بیگ سمیت مختلف شہروں میں روکا گیا اور لاہور آنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ نگران کابینہ اور نگران وزیر اعلیٰ اس وقت مکمل طور پر نگران افسر شاہی کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ” نگران “آئی جی پولیس سید کلیم امام اور”نگران“ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کیپٹن (ر) نسیم نوازنے مل کر سب کچھ کیا ہے۔ حالانکہ آئی جی پولیس سید کلیم امام کو پنجاب میں جاب کرنے کا کوئی بھی عملی طور پر تجربہ نہیں اور اس ساری صورتحال میں مسلم لیگ ن نے الزام عائد کیا ہے کہ فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔ جس طرح نگران حکومت نے مسلم لیگ ن کے مال روڈ پر میاں نواز شریف کے حق میں ریلی کو نکالنے میں رکاوٹ ڈالی ہے۔
اس سے واضح ہو گیا ہے کہ 25جولائی کے انتخابات کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بننے میں بھی رکاوٹ دالی جائے گی اور شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ پنجاب بننے سے روکا جائے گا بلکہ ڈینٹ ڈالا جائے گا۔شاید یہی وجہ ہے کہ نگران افسر شاہی اس وقت شیر بنی ہوئی ہے ۔ نگران افسر شاہی جن میں چیف سیکرٹری پنجاب اکبرحسین درانی، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم کیپٹن (ر) نسیم نواز، سیکرٹری بلدیات عارف انور بلوچ، کمشنر لاہور ڈویژن مجتبیٰ پراچہ، ڈی سی لاہور کیپٹن (ر) انوار الحق، سی سی پی او لاہور بی اے ناصر، ڈی آئی جی آپریشنز لاہور رانا شہزاد اکبر سمیت تمام” نگران“ افسران کو نگران حکومت نے اپنے طور پر یقین دلایا ہے کہ نئی حکومت بننے پر بھی وہ پنجاب میں ہی رہینگے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ اتنی دیدہ دلیری سے مسلم لیگ ن کے خلاف کریک ڈائون کر رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ الیکشن کے بعد کون سی پارٹی پنجاب میں برسر اقتدار آتی ہے اور نگران بیوروکریسی کا مستقبل کیا ہوتا ہے۔
موجودہ پنجاب کے وزیر داخلہ شوکت جاوید ماضی میں مسلم لیگ ن کی حکومت کی آشیر باد سے آئی جی پنجاب پولیس رہ چکے ہیں۔ پنجاب میں الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت بنے یا مسلم لیگ ن کی، لیکن یہ نگران افسر شاہی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا پنجاب میں کوئی مستقبل نہیں۔ انہیں اس وقت تمام کام اور تمام ایکشن صرف اور صرف میرٹ پر کرنا ہونگے ۔ اس ساری نگران حکومت میں چیف سیکرٹری پنجاب اکبر حسین درانی اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والے افسر ہیں اور انہیں بلوچستان کابھی وسیع تجربہ ہے لیکن وہ بھی نگران حکومت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ پروفیسر حسن عسکری خود گو مگوکی صورت حال سے دو چار ہیں ۔ بطور پروفیسر اور بطور اینکرپرسن ان کے خیالات اب بطور ایڈمنسٹریٹر مختلف ڈائریکشن میں جا رہے ہیں۔ نگران افسر شاہی کو نگران حکومت کو درست سمت میں مشورے دینے چاہئیں اور حالیہ کریک ڈاﺅن خواہ وہ کسی بھی طرح کا ہو وہ فوری طورپر روکنا ہوگا تاکہ الیکشن میں کوئی خلل نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ الیکشن بھی 1970کی طرح شفاف ہونا چاہیے، جسے ہرکوئی مانے اور تسلیم کرے۔ نگران افسر شاہی من پسند افسران کے تبادلے کر رہی ہے اور کئی افسران اب بھی اپنی پہلے والی اسامیوں پر ہی براجمان ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے میاں نواز شریف کی گرفتاری سے جو فائدہ حاصل کرنا تھا وہ کر لیا ہے۔
کسی بھی سیاسی جماعت کی خواہش ہوتی ہے کہ الیکشن کے آخری ہفتہ میں ان کی پارٹی اور ان کے ووٹرز کا مورال بلند رہے اور وہ بھر پور خبروں میں رہیں ،وہ حاصل کیا جا چکا ہے ۔نواز شریف باہر ایک لاکھ کے اور جیل میں سوا لاکھ کے ہےں۔ نواز شریف اب اپنے مخالفین کے گلے کی ہڈی بن چکے ہےں، جسے ہضم بھی نہیں کیا جا سکتا اور اُگلا بھی نہیں جا سکتا ہے ۔ نگران افسر شاہی نے بے ساختہ اور غیر ارادی طور پر اور معصومیت میں مسلم لیگ ن کا مقصد پورا کر دیا ہے، جو وہ چاہتے ہیں وہ ہو چکا ہے۔ نگران حکومت مسلم لیگ ن کے سوئے ہوئے ووٹرز کو بھی سڑک پر لے آئی ہے۔ پتہ نہیں نگران حکومت اور نگران افسر شاہی کو کون مشورے دے رہا ہے لیکن اس ساری گیم میں بہر حال یہ ماننا ہوگا کہ مسلم لیگ ن کی جماعت نے سیاسی فائدہ ضرور حاصل کیا ہے، لیکن حتمی فیصلہ تو 25جولائی کو ووٹ والے دن ہی ہوگا۔ نگران افسر شاہی کو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی بجائے نگران وزیر اعلیٰ کوزمینی حقائق کے مطابق ہی مشورے دینے چاہئیںتاکہ کسی کے ساتھ الیکشن اور ووٹ کے حوالے سے زیادتی نہ ہو سکے اور الیکشن کمیشن کے فیئر ، فری اور آزادانہ انتخابات کا ویژن پورا کیا جا سکے