الیکشن 2024 کا شیڈول آج جاری کریں،سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا  الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر کو معطل کرنے کا فیصلہ معطل کر دیا

Election 2024, Election Commission of Pakistan, Writ Petition, Supreme Court of Pakistan, Islamabad High Ciurt, Lahore High Court, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری: سپریم کورٹ آف پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر کے اقدام کے خلاف لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا اور الیکشن کمیشن کو آج ہی تین گھنٹے کے اندر الیکشن 2024 کا شیدول جاری کرنے کا حکم دے دیا۔

جمعہ کی شام الیکشن کمیشن نے الیکشن 2024 کے لئے ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر  پر حکم امتناعی جاری کرنے کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا تھا، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔ چیف جسٹس آف پاکستان  کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست کی سماعت کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے معزز بنچ نے متفقہ طور پر  لاہور ہائیکورٹ کا   الیکشن کمیشن کے ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر کو معطل کرنے کا فیصلہ معطل کر دیا۔ عدالت ععظمیٰ نے ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر کے متعلق  لاہور ہائیکورٹ کو مزید کاروائی سے روک دیا۔ اور حکم دیا کہ لاہور ہائیکورٹ آر اوز ڈی آر اوز سے متعلق درخواست پر مزید کاروائی نہ کرے۔لاہور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کی درخواست ناقابل سماعت ہے، الیکشن کمیشن تین گھنٹے میں الیکشن شیڈول جاری کرے۔

الیکشن کمیشن کی پیٹیشن کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آبزرویشنز  دیں کہ عمیر نیازی کی درخواست تو سپریم کورٹ کے حکم کی توہین ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے۔  چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ساتھی ججوں نے سماعت کے دوران حکم دیا کہ الیکشن 2024 کا شیڈول آج جاری ہونا ضروری ہے، اسے آج ہی جاری کریں، ہم سب کو بلا لیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں  جسٹس سردار طارق علی اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ  نے جمعہ کی شام عدالت کے دفاتر بند ہونے کے بعد ہنگامی طور پر دائر کی گئی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آئینی پیٹیشن کی فوری طور پر کورٹ روم نمبر ایک میں سماعت کی۔

پیٹیشن کی سماعت

چیف جسٹس آف پاکستان نے الیکشن کمیشن کی پیٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے دریافت کیا کہ  اگر ایک جج لارجر بنچ بنانے کا فیصلہ دے رہا ہے تو ہم کیسے مداخلت کریں؟ 

چیف جسٹس پاکستان  نے استفسار کیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں درخواست کس نے دائر کی،یہ عمیر نیازی کون ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ عمیر نیازی کے مطابق وہ پی ٹی آئی کے جنرل سیکرٹری ہیں،

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک شخص کی درخواست پر پورے ملک کے ریٹرننگ افسران معطل کر دیئے گئے،

چیف جسٹس نےاستفسار  کیا، یہ نیازی لفظ کیا ہے اس کا کیا مطلب ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اس لفظ کا مطلب نہیں پتا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تحریک انصاف تو سپریم کورٹ کے فیصلے میں فریق تھی،

جسٹس منصور علی شاہ  نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے ریٹرننگ افسران لیے تھے؟  ملک بھر میں کتنے ڈی آر اوز اور آر اوز تھے؟ 

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ڈی آر اوز 148 اور ریٹرننگ افسران 859 ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے آبزرویشن دی کہ جو ریٹرننگ افسران الیکشن کمیشن کے ہیں وہ تو چیلنج ہی نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمشن افسران اور ڈپٹی کمشنرز بھی انتخابات نہ کرائیں تو کون کرائے گا؟ تمام ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز (ڈی آر اوز ) متعلقہ ضلع کے ڈپٹی کمشنرز ہیں۔ اگر عدلیہ کے افسران انتخابات نہ کرائیں، الیکشن کمیشن بھی نہ کرائے اور ایگزیکٹو بھی نہ کرائے تو کون کرائے؟

چیف جسٹس نے قرار دیا کہ اس سے تو بادی النظر میں انتخابات ملتوی کرانا ہی مقصد نظر آتا ہے۔

 وکیل الیکشن کمیشننے بتایا کہ (غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لئے)نگران حکومت کے آتے ہی تمام افسران تبدیل کئے گئے تھے،

لاہور ہائی کورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کیا ہے۔سپریم کورٹ کی حکم عدولی مس کنڈکٹ ہے۔ ایک ہائیکورٹ کا جج کیسے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف حکم دے سکتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا جج ایسا آرڈر دے رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے بتایا کہ آر اوز  اور ڈی آر اوز  کی سات دن کی ٹریننگ تھی،  ٹریننگ ایک دن ہوئی پھر نوٹیفیکیشن معطل کر دیا گیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود  نے دریافت کیا کہ کون لوگ ہیں جو الیکشن نہیں چاہتے؟  سپریم کورٹ نے انتخابات ڈی ریل کرنے سے روکا تھا۔ کون الیکشن کے راستے میں رکاوٹ ہے؟

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدلیہ سے ایسے احکامات آنا حیران کن ہے۔

 چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ الیکشن پروگرام کب جاری ہونا تھا؟

وکیل سجیل سواتی نے بتایا کہ آج الیکشن شیڈیول جاری ہونا تھا۔

 چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا  (لاہور ہائی کورٹ میں)اٹارنی جنرل کا موقف سنا گیا تھا؟

 اٹارنی جنرل نے بتایا کہ معاونت کیلئے نوٹس ملا تھا لیکن ایڈیشنل اٹارنی جنرل پیش ہوئے تھے۔ مجھے اس کیس کے بارے معلوم نہیں تھا۔
  چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 100 میں اٹارنی جنرل کا ذکر ہے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے سماعت سے قبل مجھ سے ہدایات لی تھیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا کمرہ عدالت میں کوئی پی ٹی آئی والا بیٹھا ہے؟ ہم ان سے پوچھیں تو سہی کہ انہوں نے آر آوز کیوں چیلنج کئے۔ 

لاہور ہائی کورٹ نے ایسا حکم کیوں دیا جو الیکشن کمیشن کا اختیار تھا، جسٹس سردار طارق علی

جسٹس سردار طارق  نے استفسار کیا کہ کیا ریٹرننگ افسران کی تعیناتی کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا گیا۔ 

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ  الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے ایک بھی درخواست نہیں آئی۔

جسٹس سردار طارق نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن کے پاس ریٹرننگ افسران ہٹانے کا اختیار ہے۔

وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن ریٹرننگ افسران کو ہٹا سکتا ہے۔

جسٹس سردار طارق نے اس پر ریمارکس دیئے کہ پھر ہائیکورٹ نے ایسا آرڈر کیوں دیا جو الیکشن کمیشن کا اختیار تھا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملک کو گروی رکھنے والےعمیر نیازی کو ریلیف کیوں دیں؟  کیاعمیر نیازی نے درخواست ذاتی حیثیت میں کی؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عمیر نیازی پی ٹی آئی سے وکیل ہیں اور انہی کی جانب سے درخواست بھی کی۔

 جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ اگر آر اوز انتظامیہ سے لینے کا قانون کالعدم ہوجائے تو کبھی الیکشن ہو ہی نہیں سکے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن میں کوئی درخواست دی گئی ہے؟

وکیل سجیل سواتی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی درخواست نہیں دی گئی۔

جسٹس سردار طارق  نے استفسار کیا کہ  کوئی ریٹرننگ افسر جانبدار ہو تو کیا الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جا سکتا ہے؟

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد افسر اکیلے عمیر نیازی کیخلاف جانبدار کیسے ہوسکتے ہیں۔

 چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے، "حد ہوگئی ہے" 

 انتخابی پروگرام 54 دن کا ہونے کیلئے آج شیڈول جاری ہونا لازمی ہے۔ ہم سب کو بلا لیتے ہیں انتخابی شیڈول آج ہی جاری کریں

 چیف جسٹس پاکستان نے آبزرویشن دی کہ الیکشن شیڈیول اور ٹریننگ الگ چیزیں ہیں، ابھی تک الیکشن شیڈول کیوں نہیں دیا گیا؟"

چیف جسٹس پاکستان نے حکم دیا کہ  کہا کہ شیڈول پیش کریں، (شیڈول) تیار تو کیا ہی ہوگا۔ کیا الیکشن شیڈیول آج جاری کرینگے؟ 

سیکرٹری الیکشن کمیشن نے اس موقع پر وضاحت کی کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا کہ ٹریننگ کے بعد شیڈول جاری کرینگے۔

 چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ شیڈول کب جاری کرینگے؟ قانون کہاں کہتا ہے ٹریننگ سے الیکشن شیڈول مشروط ہے؟ 

 وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹریننگ کے فوری بعد الیکشن شیڈیول جاری ہوتا ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ آٹھ فروری میں کتنے دن رہتے ہیں؟ 

 وکیل الیکشن کمشن نے بتایا کہ آج سآٹھ فروری میں 55 دن رہتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے قرار دیا کہ انتخابی پروگرام 54 دن کا ہونے کیلئے آج شیڈول جاری ہونا لازمی ہے۔ ہم سب کو بلا لیتے ہیں انتخابی شیڈول آج ہی جاری کریں۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے بھی قرار دیا کہ ٹریننگ ہوتی رہے گی شیڈول آج جاری ہونا ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ  نے پوچھا، ڈی آر اوز کی ضرورت کب ہے؟ 

 جسٹس سردار طارق  نے سوال کیا کہ ٹریننگ بلاوجہ کیوں روکی ہے؟ کیا الیکشن کمیشن بھی انتخابات نہیں چاہتا؟

 جسٹس سردار طارق  نے مزید استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نے ڈی آر اوز کی معطلی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا؟  الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ نے نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ ہائیکورٹ تو خود ہی نوٹیفکیشن معطل کر چکی تھی۔

 جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالتیں نوٹیفکیشن معطل کریں تو متعلقہ ادارہ معطلی کا نوٹیفیکیشن نہیں جاری کرتا، 

سیکرٹری الیکشن کمیشن نے اپنے ادارہ کی جانب سےوضاحت کی کہ افسران کو الیکشن کمیشن نے حکم دینا ہوتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کا حکمنامہ

سپریم کورٹ  کی جانب سے الیکشن کمیشن کی درخواست کی سماعت کے دوران حکم نامہ لکھواتے ہوئے قرار دیا گیا کہ تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں نے انتخابات کی تاریخ پر اتفاق کیا، تمام فریقین کی رضامندی کے بعد 8 فروری کی تاریخ دی گئی، لاہور ہائیکورٹ کا حکم برقرار رکھا جائے تو الیکشن شیڈیول جاری ہونا ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جج کا فیصلہ اختیارات سے تجاوز ہے، لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے انتخابات کا سارا عمل رک گیا ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے 13 دسمبر کے حکم کی خلاف اپیل دائر کی گئی۔ سپریم کورٹ میں انتخابات کا کیس کرنے والوں کو ہائیکورٹ میں فریق بنایا گیا، درخواست میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 50 اور 51  کوغیرآئینی قرار دینے کی استدعا تھی۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن نے عدالتی ہدایات پر آٹھ فروری کی تاریخ مقرر کی۔ تمام فریقین آٹھ فروری کی تاریخ پر متفق تھے۔ وکیل الیکشن کمیشن کے مطابق عدالت نے پابند کیا تھا کوئی انتخابات میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا۔

سپریم کورٹ  کے تین رکنی بنچ نے قرار دیا کہ انتخابات کے انعقاد کیلئے تعینات ڈی آر اوز اور آر اوز کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کیا گیا۔  الیکشن کمیشن کے مطابق ہائیکورٹ آرڈر کے بعد انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے مطابق ہائیکورٹ حکم کی وجہ سے الیکشن شیڈیول جاری کرنا ممکن نہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کا یہ بھی کہنا ہے کہ  ہائیکورٹ کے حکم میں تضاد پایا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ وکیل کے مطابق کیس لارجر بنچ کو بھیجتے ہوئے ( الیکشن کمیشن کا ریٹرننگ آفیسرز اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کے تقرر کا ) نوٹیفیکیشن معطل کیا گیا۔

غیر مجاز وکیل کی مداخلت

اس دوران کمرہ عدالت میں ایک وکیل مشعل یوسفزئی  نےعدالت میں پیش ہونے کی کوشش کی۔
 چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا،ہم حکمنامہ لکھو رہے ہیں مداخلت نہ کریں، آپ کون ہیں کیا آپ وکیل ہیں؟ جا کر اپنی نشست پر بیٹھیں۔ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی ہے؟ 

 اٹارنی جنرل نے اس موقع پر روسٹرم پر آ کر کہا کہ مشعل یوسفزئی سپریم کورٹ میں کام کرنے کے مجاز وکیل نہیں ہیں۔  ان کا بولنا نہیں بنتا۔

 چیف جسٹس آف پاکستان نے وکیل مشعل یوسفزئی کو وارننگ دی کہ دوبارہ مداخلت کی تو توہین عدالت کا نوٹس دینگے۔

سپریم کورٹ  کے حکمنامہ کا تسلسل

لاہور ہائیکورٹ نے ایک ہزار گیارہ  ڈی آر اوز، آر اوز اور اے آر اوز کو کام سے روکا۔ ہائیکورٹ نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ ان افسران نے ملک بھر میں خدمات انجام دینی ہیں۔

سپریم کورٹ  نے حکمنامہ میں قرار دیا کہ کسی بھی ہائیکورٹ نے ریٹرننگ افسران دینے پر رضامندی ظاہر نہیں کی، ہائیکورٹس کی جانب سے انکار پر الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران مقرر کیے۔

ان آفیسرز کے تقرر کے متعلق سپریم کورٹ لاہور ہائیکورٹ کو مزید کاروائی سے روکتی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ آر اوز ڈی آر اوز سے متعلق درخواست پر مزید کاروائی نہ کرے۔لاہور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کی درخواست ناقابل سماعت ہے، الیکشن کمیشن تین گھنٹے میں الیکشن شیڈول جاری کرے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی حکم دیا کہ  لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی آر اوز سے متعلق درخواست سپریم کورٹ کے روبرو پیش کی جائے۔سپریم کورٹ نے مناسب سمجھا تو درخواست پر کاروائی کرے گی۔

الیکشن کمیشن کی ہنگامی پیٹیشن کا پس منظر

الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ الیکشن 2024 کا شیڈول الیکشن کمیشن کے پروگرام کے مطابق آج جاری ہونا تھا، آج جمعہ کے روز لاہور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے مبینہ سیرکٹری جنرل عمیر نیازی کی پہلے سے زیر سماعت درخواست پر لارجر بنچ بنا کر اس کی سماعت 18 دسمبر کو کرنے کا حکم جاری ہوا، اس کے بعد اپنے پروگرام کے مطابق آج ہی جاری کرنے کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آج جمعہ کے روز  سپریم کورٹ کے دفاتر بند ہونے کے بعد الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

جمعہ کی شام عدالت کا وقت ختم ہونے کے  بعد الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم نے سپریم کورٹ کی متعلقہ برانچ سے رابطہ کر کے الیکشن کمیشن نے ممکنہ درخواست دائر کرنے کے حوالے سے آگاہ کیا۔

الیکشن کمیشن کے حکام کی جانب سے سپریم کورٹ کی رجسٹری کو آگاہ کیا گیا  کہ کمیشن کے قانونی ماہرین اس وقت درخواست پر کام کر رہے ہیں۔ درخواست تیار ہوتے ہی سپریم کورٹ میں دائر کر دی جائے گی۔شام سات بجے سے پہلے موصولہ اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ کی سول برانچ کا  عملہ واپس احکام ملنے کے بعد اپنے دفاتر پہنچ گیا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمر حمید خان ، ڈی جی لاء الیکشن کمیشن سے سپریم کورٹ روانہ ہو گئے۔

بعد ازاں  الیکشن کمیشن حکام سپریم کورٹ پہنچ گئے ۔ الیکشن کمیشن  کے سینئیرحکام نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے سے متعلق  پٹیشن سپریم کورٹ میں دائر کر دی۔ الیکشن کمیشن حکام نے  کئی گھنٹے تک مشاورت کے بعد پٹیشن تیار کی۔

8 فروری کو انتخابات سے متعلق کچھ کہہ نہیں سکتے،سیکرٹری الیکشن کمیشن
جمعہ کی شام جب سیکرٹری الیکشن کمیشن سپریم کورٹ پہنچے تو ان کا کہنا تھا کہ اس وقت وہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ  8 فروری کو انتخابات سوقت پر ہوں گے یا نہیں۔

سپریم کورٹ کے عملہ کو گھروں سے واپس بلوایا گیا

الیکشن2024 پر  لاہور ہائی کورٹ کے احکام پرسیکرٹری الیکشن کمیشن سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے  کے لئے عدالت کا وقت ختم ہونے کے بعد پہنچے۔ ان کی آمد سے پہلے سپریم کورٹ کے عملہ کو گھروں سے واپس بلوایا گیا اور سپریم کورٹ کا کورٹ روم نمبر ون کھلوایا گیا۔   الیکشن کمیشن نے الیکشن 2024 کے 8 فروری کو انعقاد کو بہر صورت یقینی بنانے کے لئے  لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کیخلاف اپیل دائر کرنےکا فیصلہ کیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے آج جمعہ کے روز عدالت کا عمومی وقت ختم ہونے کے بعد  ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے ہنگامی رابطہ کیا گیا  اور عدالتِ عظمیٰ کو آگاہ کیا گیا  کہ الیکشن کمیشن لاہور اور اسلام آباد کی ہائی کورٹوں کی جانب سے الیکشن 2024 کے شیڈول پر اثر انداز ہونے والے فیصلوں کے خلاف آج جمعہ کی شام ہی اپیل دائر کرنا چاہتا ہے۔ کچھ دیر پہلے سیکرٹری الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل سپریم کورٹ پہنچ ے اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کر دی۔