دھوکا مت کھائیں، آپ سوشل میڈیا میں کسی انسان نہیں آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے متاثر ہو رہے ہیں

Artificial Intelligence generated human faces, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:دھوکا مت کھائیں، آپ سوشل میڈیا میں کسی انسان نہیں آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ 

آرٹیفیشل انٹیلیجنس اب ایسے انسانی چہروں کی تصویریں اور ویْژیول بنانے پر قادر ہو گئی ہے جن کا کبھی کوئی وجود نہیں رہا لیکن کوئی انسان انہیں دیکھ کر پہچان نہیں سکتا کہ یہ تصویریں اور ویژیول زندہ انسانوں کے نہیں ہو سکتے۔


آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے بنائے گئے کچھ مصنوعی چہروں کو تصویریں نیچے پوسٹ کی گئی ہیں۔ یہ چہرے درحقیقت ایسے افراد کے ہیں جن کا دنیا میں کبھی وجود ہی نہیں تھا۔ جی ہاں واقعی یہ تصویریں آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی کا کمال ہیں اور ان کا حقیقت میں کبھی کوئی وجود نہیں رہا۔ یعنی یہ حقیقی انسانوں کے چہرے نہیں بلکہ اے آئی امیج جنریٹر سے تیار کیے گئے ہیں۔

            حالیہ برسوں میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس امیج جنریٹر پلیٹ فارمز کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے جو تحریری ہدایات کے مطابق انسانوں کو دنگ کردینے والی تصاویر تیار کرسکتے ہیں۔

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اے آئی ٹیکنالوجی اب حیران کن حد تک حقیقی نظر آنے والے انسانی چہرے بنانے کے قابل ہوچکی ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ سفید فام افراد کے حقیقی جیسے نظر آنے والے چہرے تیار کرنے میں یہ ٹیکنالوجی مہارت حاصل کرچکی ہے، البتہ دیگر رنگوں کے چہروں میں ابھی وہ اس قابل نہیں ہوسکی۔

تحقیق میں ان خدشات کا اظہار کیا گیا کہ اس سے معاشرےپر منفی اثرات جیسے نسل پرستی میں اضافہ اور گمراہ کن مواد کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ تر افراد اے آئی ٹیکنالوجی کے تیار کردہ چہروں کو حقیقی انسانوں کے چہرے سمجھتے ہیں۔ حقیقی اور فرضی چہروں میں فرق کرنا مشکل ہے ۔
محققین نے بتایا کہ اگر اے آئی ٹیکنالوجی کے تیار کردہ چہرے حقیقی نظر آنے لگے تو یہ ٹیکنالوجی سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب اس ٹیکنالوجی کو حقیقی جیسے نظر آنے والے چہرے تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور انسانوں کی طرح نظر آنے والے ان چہروں کو مختلف جرائم کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ جو افراد اے آئی کے تیار کردہ چہروں کو حقیقی تصور کرتے ہیں، وہ اپنے فیصلے پر زیادہ پراعتماد بھی ہوتے ہیں، یعنی انہیں دھوکے کا علم نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی اے آئی ٹیکنالوجی اس حوالے سے غلطیاں کرتی ہے، مگر جس تیزی سے اس ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہو رہی ہے، اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں حقیقی اور ڈیجیٹل چہروں کے درمیان فرق کرنا لگ بھگ ناممکن ہو جائے گا۔

خیال رہے کہ ماہرین کی جانب سے یہ اکثر یہ خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی کو ڈیپ فیک تصاویر یا ویڈیوز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔