مانیٹرنگ ڈیسک: کراچی میں میئر کے انتخابات 15 جون کو ہو رہے ہیں جس کیلئے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے جب کہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کا اتحاد ہے تو دوسری جانب پیپلز پارٹی کو پی ٹی آئی کے ناراض چیئرمینز کی حمایت حاصل ہے۔
29 اگست 2020 سے کراچی جیسے میگا شہر میں منتخب نمائندے موجود نہیں، رواں سال کے آغاز میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس کے نتیجے پیپلز پارٹی نے 104، جماعت اسلامی نے 87 اور پی ٹی آئی نے 42 نشستیں حاصل کیں۔الیکشن میں مسلم لیگ (ن) نے 8، جمعیت علما اسلام نے 3 اور تحریک لبیک نے ایک نشست حاصل کی۔
تمام جماعتوں کے کل 246 یونین کمیٹیوں کے چیئرمین منتخب ہوئے جبکہ ان منتخب نمائندوں کی 121 مخصوص نشستیں بھی تمام جماعتوں میں نشستوں کے حساب سے تقسیم ہوئیں۔15 جون کو میئر کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے 184 نشستیں درکار ہوں گی تاہم سادہ اکثریت کسی بھی ایک جماعت کے پاس نہیں، اگر پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے اتحاد کے نتیجے میں تمام امیدوار اور مخصوص نشستوں پر چنے گئے افراد اپنے امیدوار حافظ نعیم کو ووٹ دیتے ہیں تو جماعت اسلامی کے پاس 130 اور پی ٹی آئی کے 63 نمائندے ہیں جو کل ملاکر 193 بنتے ہیں اور جماعت اسلامی بآسانی اپنا میئر منتخب کرواسکتی ہے ۔
دوسری جانب پیپلز پارٹی کے پاس 104 منتخب اور مخصوص ملاکر 155 نشستیں بنتی ہیں تاہم مسلم لیگ (ن) کی 14 اور جمعیت علما اسلام کی 4 نشستیں ملائی جائیں تو 173 نشستیں بنتی ہیں لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔
کہانی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو پی ٹی آئی کے فاروڈ بلاک کا سامنا ہے جس میں کم و بیش 30 افراد شامل ہیں، ایسے میں اگر یہ 30 افراد جماعت اسلامی کو 15 جون کو ووٹ نہیں دیتے تو جماعت کے پاس 193 کے بجائے 163 افراد رہ جائیں گے جب کہ پیپلز پارٹی کے 173 پکے ووٹ ہیں۔
اس وقت پیپلز پارٹی کو 10 سیٹوں کی برتری جماعت اسلامی پر حاصل ہے تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے 15 جون کو حافظ نعیم الرحمان کو ووٹ نہ دینے والے بلدیاتی نمائندوں کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس دلچسپ صورتحال میں دونوں بڑی جماعتیں اب پی ٹی آئی کے ووٹوں کی جانب دیکھ رہی ہیں۔