آئین میں بنیادی حقوق کا مقصد عوام کو خوش رکھنا ہے، چیف جسٹس

  آئین میں بنیادی حقوق کا مقصد عوام کو خوش رکھنا ہے، چیف جسٹس
کیپشن: Chief Justice Umar Atta Bandyal, file photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک:چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کا کہنا ہے کہ آبادی میں بے ہنگم اضافے پر قابو پانے کیلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ 

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے  اسلام آباد میں قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فرد کی خوشی خاندان کی خوشی میں مضمر ہے، ماں اور بچے کی صحت کا خیال رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔  آئین میں بنیادی حقوق کا مقصد عوام کو خوش رکھنا ہے۔  کانفرنس کے ذریعے ہم مل کر سوچیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ پاکستانی عوام کو ایک خوشحال خاندان دیکھنا چاہتی ہے، سپریم کورٹ بنیادی حقوق کی فراہمی کیلئے کام کرتی ہے، آئین پاکستان آزاد اور خوشحال زندگی کی ضمانت دیتا ہے۔ بطور جج میں صرف درست یا غلط نہیں دیکھتا بلکہ پہلی ترجیح بنیادی حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ ایران اور بنگلہ دیش اپنے وسائل پر توجہ دیتے ہیں، مسئلہ آبادی کنٹرول کا نہیں بلکہ آبادی کو درست سمت میں مثبت طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں مسائل کے حل کیلئے صرف حکومت پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے، معاشرے کے تمام افراد کو مل کر مسائل کا حل ڈھونڈنا ہوگا، شہریوں کو بہتر تعلیم و تربیت اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا انکے بنیادی حقوق ہیں، پاکستانی عوام کو آگے بڑھ کر اپنے مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ 1947 میں جب پاکستان بنا تو ہمارے پاس پیسے تک نہیں تھے، عوام کی مدد سے قیام پاکستان کے بعد مالی مسائل میں کمی آئی۔

عمرعطا بندیال نے کہا کہ پہلے سادگی اور وضح داری اہم ہوتی تھی، آج ہماری اشرافیہ سادگی بھول گئی ہے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے مسائل کا حل ممکن ہے،  آج ہمارے ملک میں ٹیکنیکل ادارے بند ہوچکے ہیں، نوجوان نسل کو تکنیکی تعلیم دینا بہت ضروری ہے۔ میری ذمہ داری ہے کہ جو درخواست لیکر آئے اس کے حقوق کا تحفظ کروں۔ 

انہوں نے کہا کہ آبادی کو کم کرنے کا کہنا درست نہیں بلکہ نئی نسل کیلئے روزگار ڈھونڈنا مسئلہ ہے،ججز کو لوگوں سے ملنا چاہیے تاکہ نئے خیالات اور رائے کا پتا چل سکے، 
 پاکستان بننے کے چار سال کے اندر جرمنی اور چین کے مدمقابل تھا۔  آج معاشرے کی اشرافیہ ہمیں بتاتی ہے کہ کس سمت میں چلنا ہے۔ جب تعلیم حاصل کر رہا تھا تو لاہور سے پشاور کے راستے میں 200 ووکیشنل سنٹرز آتے تھے، اب ایک نوکری کیلئے ہزاروں لوگ اپلائی کرتے ہیں، 70 کی دہائی میں مزدور اقوام متحدہ بھیجے گئے، وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب ختم ہوگیا کیونکہ مہارت میں جدت نہیں لائی گئی۔