لوئر مال (راؤ دلشاد) یونین کونسلز ختم کرکے بلدیاتی ایکٹ 2019ء کے تحت فیلڈ آفسز تو بنا دیئے گئے لیکن ثالثی کونسلز وجودمیں نہ آ سکیں، 4 ہزار سے زائد طلاق کے کیسز التواء کا شکار، یونین کونسلز کو ختم کر کے شہر کے 111 فیلڈ دفاتر شہریوں کو ریلیف دینے میں ناکام ہوگئے۔
ثالثی کونسلز نام کی حد تک ہے لیکن کوئی اتھارٹی نہیں، شہری پیدائش، اموات، شادی اور طلاق کے کیسز کے سرٹیفکیٹس کے حصول کیلئے رُل گئے، بلدیاتی نظام ختم ہونے کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ ثالثی کونسل کا چیئرمین بنا مگر فیلڈ دفاتر میں صرف نئے پیدائشی سرٹیفکیٹس کا حصول ہی ممکن ہوسکا ہے، جبکہ جیل اور بیرون ممالک میں پیدا ہونے وا لے پاکستانی بچوں کی پیدائش کا اندراج خواب بن گیا۔
سابق سیکرٹری یونین کونسل حق نواز نے کہا ہے کہ ثالثی کونسل کی بااختیاری سے طلاق کے سرٹیفکیٹس کے حصول کیلئے شہریوں کو بار بار فیلڈ دفاتر کے چکر لگانا پڑتے ہیں، ایم او آر کو ثالثی کونسلز کے اختیارات دینے سے معاملہ حل ہوسکتا ہے، شہر کے 9 زونز میں قائم فیلڈ دفاترعوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکام ہوگئے ہیں، فیلڈ دفاتر سے اموات اور طلاق سرٹیفکیٹس کا اجراء عملی طور پر ناممکن ہوگیا۔
دوسری جانب محکمہ بلدیات نے 335 نئے افسر بھرتی کرنے کی ریکوزیشن پنجاب پبلک سروس کمیشن کو ارسال کردی، محکمہ بلدیات کی جانب سے ریکوزیشن میں335نئے افسران بھرتی کر نے کی درخواست کی گئی ہے، گریڈ 17 میں 200 بلڈنگ انسپکٹرز، 97 اکاؤنٹنٹ اور 38 ایم او فنانس بھرتی کیے جائیں گے، ریکوزیشن سیکرٹری بلدیات ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کی منظوری سے ارسال کی گئی۔
واضح رہے کہ 5 مئی 2019 کو پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019ء کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہوتے ہی لارڈ میئر، ڈپٹی میئرز سمیت لاہور شہر کے 736 اور صوبہ بھر کے58 ہزار بلدیاتی نمائندے فارغ ہوگئے تھے۔