سوشل میڈیا قوانین، کون کون زد میں آئے گا؟

سوشل میڈیا قوانین، کون کون زد میں آئے گا؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42: سوشل میڈیا شاید اس نیت سے تخلیق کیا گیا کہ بلا رنگ و نسل و مذہب و ملت، کرہ ارض کو اصلی گلوبل ولیج بنا دے گا۔ ہم اپنے دکھ سکھ ریئل ٹائم میں بانٹنے کے قابل ہوجائیں گے بلکہ ان گنت مشترکہ مسائل کے درجنوں حل بھی ڈھونڈھ سکیں گے۔ شاید پہیے کی ایجاد کے بعد سب سے اہم ایجاد انٹرنیٹ ہے۔ سوشل میڈیا نے لوگوں کی زباں بندی کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے کالعدم کردیا ہے، اب خبر پر خبر کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہے۔ کوئی  کسی کا مضمون چھاپنے سے انکار کرے گا تو میں اسے فیس بک پر ڈال دوں گا۔ جن ریاستوں میں سوشل میڈیا کو سائبر زنجیر پہنانے کی کوشش کی گئی، وہیں کے دس پندرہ سال کے بچوں نے ان زنجیروں کو توڑ کر رکھ دیا۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس پر کوئی بھی اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کرسکتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کے منفی استعمال بھی سامنے آئے ہیں۔ جعلی اکائونٹس کی بھرمار سے مسائل نے جنم لیا، کئی خواتین مردوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کر زندگیاں گنوا بیٹھیں۔ حال ہی میں سابق ڈی آئی جی گلگت بلتستان کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ درج کیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے سابقہ بیوی کی تصاویر فیس بک پر ڈالی ہیں۔ اسی طرح متعدد واقعات ہیں جو معاشرے کےلیے ناسور بنے۔ ایف آئی اے کی رپورٹس کے مطابق سائبر کرائم سیل میں سب سے زیادہ شکایات جنسی ہراسانی کی موصول ہوئی ہیں۔ رواں سال اس ادارے کو 2,295 شکایات موصول ہوئیں، 255 مقدمات درج کیے گئے اور 209 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ توہین مذہب اور نفرت انگیز مواد پھیلانے پر سزائیں بھی سنائی گئیں۔ رواں سال سائبر کرائم کی شرح ماضی سے زیادہ ہے۔
دنیا بھر میں حکومتوں کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب سے بڑا خطرہ سوشل میڈیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے اسے بین کررکھا ہے تو امریکا میں مڈٹرم الیکشن کے دوران فیس بک کے 30 اور انسٹاگرام کے 85 اکائونٹس بندکردیئے گئے، ان اکائونٹس پر الزام یہ عائد کیا گیا کہ یہ انتخابی نتائج پر اثر انداز ہورہے تھے جبکہ یہ روسی اور فرانسیسی زبانوں میں تھے۔

اب پاکستان میں حکومت نے خفیہ طور پر قانون بنایا ہے جس کے تحت سوشل میڈیا پر موجود کروڑوں ذہنوں کو قید کیا جائے گا،اب صارفین وہی بول سکیں گے جو ریاست کو اچھا لگے گا،حکومت کیلئے ناگوار نہیں ہوگا،بے لگام گھوڑا کھونٹے سے باندھا جائے گا۔کابینہ نے جو ریگو لیشن کا قانون منظور کیا ہے اسے پارلیمنٹ میں بھی پیش نہیں کیا جائے گا۔حکومت نے اسے خفیہ رکھنے کی وجہ بتائی ہے کہ وفاقی کابینہ میں منظور کیے گئے قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی 3 ماہ میں پاکستان میں رجسٹریشن لازمی قرار دے دی گئی ہے۔

یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹر سمیت تمام کمپنیاں رجسٹریشن کرانے کی پابند اور کمپنیوں کیلئے 3 ماہ میں وفاقی دارالحکومت میں دفتر قائم کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں ڈیٹا سرور بنانا ہوں گے جب کہ سوشل میڈیا کمپنیوں پر پاکستان میں رابطہ افسر تعینات کرنے کی شرط بھی عائد کی گئی ہے۔اداروں اور ملکی سلامتی کے حوالے سے بات کرنے والوں کیخلاف کارروائی ہوسکے گی، سوشل میڈیا کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل کوآرڈینیشن اتھارٹی بنائی جائے گی، ملکی اداروں کو نشانہ بنانے، ممنوعہ مواد اور ہراسگی کی شکایت پر اکائونٹ بند کر سکے گی۔ اتھارٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کے خلاف ویڈیوز نہ ہٹانے پر ایکشن لے گی اوراگر کمپنیوں کی جانب سے تعاون نہ کیا تو ان کی سروسز معطل کر دی جائیں گی،یہ قانون کتنا موثر ہے؟ اس کا تو وقت بتائے گا۔

Azhar Thiraj

Senior Content Writer