ملک اشرف: پٹرولیم قیمتوں میں اضافہ کیوں؟ کیسے؟ اور کس کیلئے؟ عوام کی جیبوں پر کھربوں کا ڈاکہ، عجب کرپشن کی غضب کہانی، پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں پیش کردی گئی، چیف جسٹس محمد قاسم خان نے رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس ہائیکورٹ محمد قاسم خان نے شبیر حسین کی درخواست پر سماعت کی، پٹرولیم مصنوعات کمیشن کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ابوبکر خدا بخش رپورٹ سمیت عدالت پیش ہوئے، وفاقی حکومت کی جانب سے ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد علی باجوہ اور عدالتی معاون ملک اویس خالد ایڈوکیٹ سمیت دیگرعدالت پیش ہوئے۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل آصف باجوہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پٹرولیم کمیشن کی رپورٹ کو وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد پبلک کیا جائے گا، عدالت سے استدعا ہے کہ وفاقی کابینہ کو رپورٹ پبلک کرنے کا موقع دیا جائے، جبکہ عدالتی معاون ملک اویس خالد نے کہا کہ عدالت کے پاس اختیار ہے کہ وہ رپورٹ پبلک کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا یہ سارا معاملہ عدالت کے حکم پر شروع ہوا اس طرح عدالت کا ہی صوابدیدی اختیار ہے کہ رپورٹ منظر عام پر لائی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ پبلک ہونے کے پیچھے قانون کی منشاء ہے اس لئے یہ رپورٹ پبلک ہونا ہی ہے، رپورٹ میں جتنی غلطیاں، کوتاہیاں سامنے آئی ہیں شاید کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ رپورٹ پبلک ہو۔
چیف جسٹس کے حکم پر پیٹرولیم کمیشن کے سربراہ ابوبکر خدابخش نے رپورٹ پڑھتے ہوئے بتایا کہ وزارت انرجی، ایکسکلوسیو، ریفائنری، 66 آئل مارکیٹنگ کمپنیاں، 34 کمپنیاں مارکیٹنگ کرسکتی ہیں، وزارت انرجی کے پاس مکمل ریکارڈ نہیں ہے، او سی اے سی کے پاس بھی ڈیٹا مکمل نہیں تھا، وزارت پیٹرولیم او سی اے سی پر انحصار کرتی ہے۔
ابو بکر خدا بخش نے کہا کہ جب ڈی جی آئل سے 1971ء کے رولز کے تحت پوچھا کہ ریکارڈ دیں تو انہوں نے معاملہ اوگرا پر ڈال دیا، اوگرا اپنی ذمہ داری ڈی جی آئل پر اور ڈی جی آئل اپنی ذمہ داری اوگرا پر ڈالتے رہے، 13 سے 14 دن کا سٹاک موجود تھا، یہ وہ وقت تھا جب تیل کی قیمت نیچے آرہی تھی، 1 لاکھ 88 ہزار ٹن امپورٹ نہیں کیا گیا، 7 ڈالر فی بیرل پر قیمت آ گئی انڈیا نے اس کا فائدہ اٹھایا، ہم نے عالمی منڈی میں پیٹرول کی گرتی ہوئی قیمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دوران امپورٹ پر پابندی تھی، نومبر میں پی ایس او کی امپورٹ کے مطابق قیمت دسمبر میں طے ہوتی ہے، سٹیک ہولڈرزکو پہلے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ آئندہ ماہ قیمتیں کم ہو جائیں گی، 32 روپے ڈیزل اور 26 روپے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا گیا، جہاں انکو فائدہ ہوا وہاں عوام اس سے مستفید نہیں ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن کے پاس کوئی ایسا ٹول نہیں تھا کہ جس سے اندازہ لگا سکتے کہ ذمہ دار کون ہے، ہم نے 94 پمپ چیک کئے جنہوں نے کوٹہ حاصل کر رکھا تھا، ایک لاکھ لیٹر کاغذوں میں وصول ہوا اور در حقیقت 40 ہزار لیٹر وصول ہوتا رہا، مارکیٹ شیئر کے حساب سے9 کمپنیوں نے 5 ارب روپے کمائے، ملک میں 66 آئل مارکیٹنگ کمپنیاں ہیں جسے ہم سنبھال نہیں پارہے۔
چیف جسٹس نے کہا ریٹائرڈ جنرل یا انکے رشتہ دار، یا ریٹائرڈ بیورو کریٹس یا انکے رشتہ داروں کی بھی کوئی کمپنیاں سامنے آئیں، کمیشن کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے کہا وی ٹول کمپنی انٹرنیشنل نے 40 فیصد شیئرز ہیسکول کے شیئرز لے لئے ہیں، لگتا یہ ہے کہ وہ کمپنیوں کا جہاز آ گیا کہ 10 دن انتظار میں رہی کہ حکومت قیمت بڑھائے اور پھر جہاز لنگر انداز کریں، چیف جستس نے کہا کہ 7 کمپنیوں نے حکومت کے 4 دن پہلے ریٹ بڑھانے کہ وجہ سے 2 ارب روپے کما لئے۔
کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ ایک کمپنی جس کا ایک بھی پمپ نہیں اسکو ایک ہزار ٹن کا کوٹہ دیا گیا، ڈی جی آئل جس کو تعینات کیا گیا ہے وہ ویٹرنری ڈاکٹر ہے، پارکو کے علاوہ کوئی بھی ریفائنری ایسی نہیں جو یورو 5 کی ٹیکنالوجی استعمال کرسکے، ایرانی پیٹرول کا جہاز پکڑا تھا جو ملی بھگت سے پاکستان میں بیچا جاتا رہا، عامر عباسی جو بائیکو ریفائنری کے مالک ہیں جو نیب کو مطلوب ہیں، جو بندہ قانون کا بگوڑا ہو اسکو لائسنس جاری نہیں ہو سکتا، 2002ء میں بائیکو کو لائسنس ملا اور 2016ء رولز کے تحت عامر عباسی نے لائسنس کی تجدید نہیں کی، 23 ارب کا الزام ہے اور نیب نے سندھ میں سوا ارب روپے میں پلی بارگین کر لی۔
چیف جسٹس نے کہا اسکامطلب ہے ایک بندہ جس پر 23 ارب روپے کا الزام ہے اسے سوا ارب میں دھو کر صاف ستھرا کر دیا، چیئرمین اس طرح کی پریس کانفرنسز کرتے ہیں کہ اتنے پیسے ریکور کر لئے، اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ جو کوئٹہ تعینات ہوتے ہیں وہ ایک سال بعد ارب پتی بن کر آتے ہیں، 26 جون کو قیمتیں بڑھانے کی منظوری کس نے دی۔
ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ابوبکر خدابخش کا کہنا تھا کہ 20 فیصد سمگلنگ کا پیٹرول پکڑا جاتا ہے باقی نہیں پکڑا جاتا، بارڈر پر بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہوتی ہے، انہوں نے کچھ سفارشات تیار کی ہیں جس کے مطابق پی ایس او اور شیل کو مسلسل نقصان ہو رہا تھا، اوگرا نے کچھ نہیں اسکو تحلیل کیا جائے، نئے پیٹرولیم رولز بنائے جائیں اور سٹاک کا معاملہ اس کے تحت رکھا جائے، پٹرول کی قیمتیں 15 دن کی بجائے 30 دن میں بڑھائی یا کم کی جائیں، ذمہ داروں کیخلاف نیب کا کیس بنایا جائے، بہترین کام کرنے والی کمپنیوں کو سمگلنگ کی وجہ سے نقصان ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے پریم کمیشن کے سربراہ کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آیا کوئی معاملہ ایسا رہ گیا ہے جس کو مزید تحقیق کی ضرورت ہے؟ عدالت کو آئیندہ سماعت پر بتایا جائے کن کن لوگوں کیخلاف کن کن قوانین کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے، 4 دن پہلے قیمت بڑھانے سے ریاست کو نقصان ہوا ہے وہ کس سے ریکور کیا جائے، حکومت پاکستان یقینی بنائے کہ بغیر رکاوٹ پٹرولیم مصنوعات عوام کو دستیاب ہوں، ڈپٹی کمشنرز اور وفاقی حکومت کے تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں، عدالت نے کیس کی مزید سماعت جنوری تک ملتوی کر دی۔