حبیب جالب سردیوں میں جاسوس لگتے تھے

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

حبیب جالب سردیوں میں جاسوس لگتے تھے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 خاور نعیم ہاشمی   

آوارہ گرد فریب سود و زیاں سے گزرے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ،ان کے مشاہدے اور تجربے کو کسی کتابی علم سے چیلنج نہیں کیا جا سکتا، بے شمار آوارہ گرد ہمیشہ میرے قریب رہے ، یہ آوارہ گردی کا اعجاز ہی تھا کہ حبیب جالب جیسے بڑے لوگ بھی میرے مہربان رہے، جالب صاحب سفید کرتے پاجامے پر سلوکہ پہنتے تھے(جس کی بڑی بڑی جیبیں ہوتی ہیں، اسے عمومآ دوکاندار اور بیوپاری نوٹ سنبھالنے کے لئےقمیض کے نیچے پہنتے ہیں، جالب صاحب شاید سرمایہ داروں سے انتقام لینے کے لئے سلوکہ پہنتے ہوں ) دونوں موسموں میں جالب صاحب کے پیروں میں پرانے سینڈل نظر آتے، شاید اس لئے کہ کہیں نیند آ جائے تو اتارنا آسان ہوتا ہے ، موسم سرد ہوتا تو سر پر گرم ٹوپی اور جسم پر فل کوٹ پہن لیتے ، جالب صاحب گرمیوں میں شاعر اور سردیوں میں جاسوس لگا کرتے تھے، میں چار پانچ سال کا تھا جب وہ ہاشمی صاحب کے لکشمی چوک والے آفس میں کبھی کبھی دوپہر کو کھانا کھانے یا رات کو سونے کے لئے آیا کرتے تھے، ایک بار تو انکی بیگم انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچ گئی تھیں، جب ہمارا آوارہ گردی کا دور شروع ہوا تو جالب صاحب روزانہ کہیں نہ کہیں ضرور دکھائی دے جاتے، وہ کئی بار مال روڈ پر سہروردی اور ملک معراج خالد کے ساتھ بھی دکھائی دیے، میاں محمود قصوری کے فین روڈ والے گھر اور ہائی کورٹ کے بوہڑ والے درخت کے نیچے بیٹھنا ان کے معمولات کا حصہ تھا، میں نے انہیں محترمہ فاطمہ جناح کے لارنس گارڈن والے انتخابی جلسے سے خطاب کرتے اور ایوب خان کے خلاف نظم پڑھتے بھی دیکھا ، 1970 میں جب میں نے روزنامہ آزاد جوائن کیا تو جالب صاحب سے روزانہ باقاعدہ ملاقاتیں شروع ہو گئیں، مظہر علی خان کا دفتر اور نثار عثمانی صاحب کا گھر بھی ساتھ ہی تھا وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے،، جالب صاحب مجھے بھتیجا کہہ کر مخاطب کرتے ، عمر کم ہونے کے باعث مجھے لاہور پریس کی رکنیت دوسال بعد ملی تھی ، جب میں کلب ممبر بنا تو بابا ظہیر کاشمیری، ملک حامد سرفراز اور جالب صاحب کے ساتھ بھی تاش کھیلنے کا اعزاز حاصل ہوا، بابا جی تو بہت''تھوڑ دلے '' اور جنم جنم کے غریب تھے، وہ پانچ اور دس روپے سے زیادہ کبھی نہیں کھیلتے تھے،میرے جیسا کوئی ان کے ہتھے چڑھ جاتا تو اس کی کم بختی آجاتی۔اور اگر کوئی باباجی سے دس بیس روپے جیت جاتاتو چاہے دن چڑھ جائے وہ اسے اٹھنے نہیں دیتے تھے، جالب صاحب وہاں تاش نہیں باقاعدہ کھیلنے آتے تھے ، وہ بہت کم ہارتے ، ان کے پارٹنر عام طور پر آؤٹ سائیڈر ہوتے، جالب صاحب میرا بہت دھیان رکھتے تھے، عام طور پر جب وہ جیت کر کلب سے اٹھتے تو مجھے اشارے سے ایک کونے میں لے جاتے اور پوچھتے اوئے بھتیجے توں کنے ہاریا ایں۔۔۔میں جھوٹ بولتا۔۔۔۔ چار سو۔۔۔۔ وہ مجھے 200پکڑاتے اور نکل جاتے، عمر کے آخری سالوں میں ان کی راتیں باری علیگ صاحب کے پرانی انارکلی والے چوبارے اور مصطفی قریشی کے گھرپر بھی بسر ہوئیں، باری علیگ کا یہ چوبارہ ان کے بڑے بیٹے مسعود باری کے تصرف میں تھا، ان کے چوبیس گھنٹے مہمانوں کو ویلکم اور خدا حافظ کہنے میں گزرتے تھے، ایک بار جالب صاحب نے وہاں روزانہ جانا شروع کر دیا، جالب صاحب جب پرانی انار کلی چوک میں پہنچتے تو وہاں پان شاپ پر ایک نوجوان انکے استقبال کے لئے کھڑا ہوتا ، وہ جالب صاحب کو پان اور سگریٹ کی ڈبیہ دیتا، ان کا بستہ ان کے بغل سے اپنے ہاتھ میں لیتا اور انہیں مسعود باری تک پہنچاتا، یہ معمول ایک عرصے تک جاری رہا ، ہم سب اس کو جالب صاحب کا دیوانہ سمجھتے رہے، ایک دن کیا ہوا کہ جالب صاحب اپنا بستہ خود بغل میں دبائے وہاں پہنچے ، ان کا دیوانہ ان کے پیچھے تھا، وہ بہت غصے میں تھا اور بری طرح جالب صاحب کو گھور رہا تھا، جالب صاحب کے بھی ہوش اڑے ہوئے تھے، کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا ، بڑی مشکل سے اس نوجوان کو بولنے پر آمادہ کیا گیا، باقی بات آپ اسی نوجوان کی زبانی سنئیے۔۔۔۔۔'' آپ لوگوں نے مجھے ان پڑھ سمجھا ہواتھا، اور میرے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا تھا۔۔۔۔ ہاں، میں ان پڑھ ہوں مگر میری باجی نے تو بی اے کیا ہوا ہے کل رات میں نے گھر میں ذکر کر دیا کہ آجکل''غالب صاحب'' کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہوں وہ تو میری باجی نے بتایا کہ غالب کو مرے ہوئے تو سو سال سے بھی زیادہ ہوگئے ہیں''۔۔۔ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے،، کے خالق حبیب جالب کی  انقلابی شاعری اور ریاست کے خلاف باغیانہ کردار کے بعد تیسری بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سب کچھ کرتے تھے مگر کبھی بھی کہیں بھی وہ ابنارمل یا مدہوش نہ پائے گئے، جالب اپنے اشعار اپنے کلام کی تخلیق موسیقیت کے ساتھ کرتے تھے، ان کا جو کلام فلموں کا حصہ بنا اس کی دھن جالب صاحب ہی بنی ہوتی تھی، جالب صاحب اپنا کلام جس بحر، جس رنگ میں بھی ہوخود گاتے تھے، وہی موسیقار اور سنگر کاپی کر لیتے تھے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کیخلاف ہم نے صف بندی کی تو جالب صاحب اگلی صفوں میں کھڑے تھے، انہی دنوں انسانی حقوق کی تنظیم کے احتجاجی مظاہرے میں جالب صاحب کی پولیس کے ہاتھوں پٹائی کی تصویر تو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، یہ تصویر ڈان کے اظہر جعفری نے اتاری تھی۔۔1992/93میں میرا تبادلہ جنگ لندن میں ہو گیا تو وہاں اطلاع ملی کہ جالب صاحب بہت بیمار ہو گئے ہیں، بیماری بڑھ گئی تو جنگ گروپ نے بیرون ملک علاج کی ذمے داری لے لی اور انہیں کرامویل اسپتال لندن پہنچا دیا گیا، میری رات سات بجے تک ڈیوٹی ہوتی تھی ، چھٹی کے بعد اکثر جالب صاحب کی عیادت کو پہنچ جاتا، ایک دن جالب صاحب نے کچھ پینے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے ان کے ڈاکٹر سے بات کی ، ڈاکٹر نے ایک ڈبہ بئیر کی اجازت دیدی۔ ایک روز دوپہر کے قریب کوئی پاکستانی صاحب مجھ سے ملنے ائے، انہوں نے بتایا کہ وہ برطانیہ میں حبیب بنک کے سربراہ ہیں اور مجھ سے دریافت کرنے آئے ہیں کہ لندن میں کوئی پرابلم تو نہیں؟ اور ان کے لئے کوئی خدمت ہو تو بتا سکتا ہوں اسی دوران کرامویل اسپتال سے میرے لئے ارجنٹ کال آئی، کال کرنے والا کوئی گورا ڈاکٹر تھا، اس کا کہنا تھا کہ جالب صاحب کو ایک اٹینڈنٹ کی ضرورت ہے اور ان کا اصرار ہے کہ آپ ان کے پاس ہوں میں نے ''اوکے'' کہہ کر فون بند کیا تو ایک خیال میرے دماغ میں کوندا کیوں نہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے مہمان کو جالب صاحب کے پاس بھجوا دوں؟ میں نے حبیب بنک کے اس سربراہ سے کہا،، مجھے تو ابھی آپ کی مدد کی ضرورت پڑ گئی، وہ صاحب ہمہ تن گوش ہوئے، آپ مہربانی فرما کر کرامویل اسپتال چلے جائیں ، وہاں جالب صاحب کو میرے وہاں آنے تک کمپنی دیٕں، وہ صاحب رضامندی ظاہر کرکے میرے افس سے چلے گئے، رات سات بجے کاپی پریس میں بھجوانے کے بعد میں ٹیوب میں بیٹھ کر اسپتال پہنچ گیا ، جالب صاحب کا روم دوسرے فلور پر تھا، لفٹ جب اس فلور پر رکتی تو بائیں جانب یہ پورا کمرہ نظر آجاتا ، میں نے لفٹ سے اترتے ہی دیکھا کہ میرا بھجوایا ہوا آدمی کرسی پر بیٹھا ہے، وہ جونہی میرے استقبال کے لئے کرسی سے اٹھا ، میں کمرے میں داخل ہو گیا، بستر پر پڑے جالب صاحب اس شخص کی جانب منہ کئے پوری طاقت سے چلا رہے تھے اوئے (گالی) تو بار بار کیوں کھڑا ہو جاتا ہےِ؟ تو آرام سے بیٹھ نہیں سکتا۔۔۔ اس کے بعد ایک اور گالی۔۔۔ اوروہ آدمی پھر کبھی مجھے نہیں ملا۔