پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہیں ملے گا، سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ

Supreme Court of Pakistan, Election Commission of Pakistan, City42, Intra-Party Election, Pakistan Tahrik e Insaf, Akbar S Babar, Hamid Khan Advocate, Ali Zafar Advocate, Justice Amin-ud-Din Khan, Justice Athar Minallah, Court Room Number 1
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

امانت گشکوری: سپریم کورٹ آف پاکستان نے  الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کر کے اسے انتخابی نشان جاری نہ کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔الیکشن کمیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں تھے،پی ٹی آئی شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مختصر فیصلہ سنایا۔

پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں جمہوریت کو نظرانداز کیا

سپریم کورٹ نے اپنے مختصر فیصلہ میں قرار دیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں تھے ، پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات میں جمہوریت کو نظرانداز کیا۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر نوٹس جاری کیے۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا نوٹس 2021 میں کیا۔الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک انتخابات کرانے کا وقت دیا۔ الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا بصورت دیگر انتخابی نشان لینے کا بتایا گیا۔

پی ٹی آئی کا بیک وقت  دو ہائی کورٹوں سےرجوع

 فیصلہ میں قرار دیا گیا کہ پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کا پانچ رکنی بنچ بنا جو زیر التوا ہے۔  پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائیکورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔

 سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے دو روز تک الیکشن کمیشن کی پیٹیشن کی سماعت کرنے کے بعد آج شب مختصر فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اسے انتخابی نشان جاری نہ کرنے کے فیصلہ کو برقرار رکھنے اور اس فیصلہ کو کالعدم قرار دینے والے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پیٹیشن کی آج کی سماعت

سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی مین تین رکنی بنچ نے کل الیکشن کمیشن کی پیٹیشن کی سماعت شروع کی تھی، کل اور آج دن بھر طرفین کے دلائل سننے کے بعد آج شام سماعت مکمل کر دی گئی۔ بنچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھے۔

 
پی ٹی آئی کارکنوں نے شکایتوں کے انبار لگا دیئے

 آج سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں نے پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت کے خلاف  شکایتوں کےا نبار لگا دیئے ۔  کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا جو پی ٹی آئی ممبران انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض کر رہے ہیں وہ نام لکھوا دیں اور پھر حکم دیا  کہ جن لوگوں کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں لڑنے دیا سامنے آئیں۔

سب سے پہلے  پی ٹی آئی رہنما یوسف علی سامنے آئے اور کہا کہ میں بچپن سے پی ٹی آئی کا رکن ہوں 2013 میں بھی انتخابات لڑے تھے،محمود احمد خان نے کہا میں 2006 سے پی ٹی آئی کا ممبر ہوں،عمران خان کے متعدد سیمینار کرائے،میں ہمیشہ پی ٹی آئی میں رہوں گا مجھے انٹرا پارٹی الیکشن کا بتایا ہی نہ گیا۔ 

نورین فاروق کی گواہی

  پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں نے چیف جسٹس کے سامنے شکایات پیش کیں کہ وہ انٹرا پارٹی الیکشن لڑنا چاہتے تھے لیکن پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت نے انہین انٹرا پارٹی الیکشن میں شامل ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔

خاتون رہنما نورین فاروق  چیف جسٹس سے کہا کہ ہم شروع سے پی ٹی آئی کے کیساتھ ہیں مگر اب نظرانداز کر دیا گیا،عمران اسماعیل کیساتھ ہوتی تھی پنجاب میں بھی رہی ہوں،جی ایٹ اسلام آباد میں تین منزلہ پی ٹی آئی کا دفتر ہے،اسلام آباد کے دفتر گئے مگر انٹرا پارٹی انتخابات کا بتایا تک نہیں گیا،مجھے عمران خان کہتے تھے کہ  یہ پی ٹی آئی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ 

 نورین فاروق  نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ 1999 میں پی ٹی آئی کا حصہ بنی اور خواتین ونگ کی مقامی صدر تھی، نعیم الحق کی سیکرٹری کے طور پر بھی فرائض انجام دیتی رہی ہوں، کسی اور جماعت کا حصہ نہیں بنی، الیکشن لڑنا چاہتی تھی لیکن انٹرا پارٹی الیکشن میں شریک ہونے کا موقع نہیں دیا گیا۔  عمران خان مجھے پارٹی کا اثاثہ اور انسائیکلوپیڈیا کہتے تھے، مجھے انٹرا پارٹی الیکشن لڑنے کا موقع نہیں دیا گیا۔  

  چیف جسٹس نے حامد خان سے استفسار کیا کہ خان صاحب آپ لوگوں سے ناراض ہیں کیا؟پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کیخلاف درخواست گزار نے چیف جسٹس سے کہا کہ سچ بولنے پر ہمیں نظرانداز کیا گیا،بانی رکن پی ٹی آئی بلال اظہر رانا عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ  بانی ارکان میں آپ کا نام نہیں ہے،بلال اظہر رانا نے جواب دیا کہ 25اپریل 1996 سے تحریک انصاف کا حصہ ہوں۔

اکبر ایس بابر نام کے نہیں واقعی بانی ہیں

  اکبر ایس بابر ن کی جانب سے ان کے وکیل نے عدالت میں پیش ہو کر کہا کہ اکبر ایس بابر نام کا بانی رکن نہیں واقعی پارٹی کے بانی ہیں،  تمام دستاویزات لایا ہوں،بلے کا انتخابی نشان لینےکیلئے میرے موکل نے ہی الیکشن کمیشن کو لکھا تھا۔

پی ٹی آئی کے رکن محمد مزمل بھی عدالت میں پیش  ہوئے اور بتایا کہ 2016 سے پی ٹی آئی کے رکن اور ٹوبہ ٹیک سنگھ سے وائس پریذیڈنٹ تھے، انٹرا پارٹی انتخابات میں حصہ لینے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ گئے تو  کہا گیا  کہ "خان صاحب" نے جن کو کہہ دیا وہی لوگ انٹرا پارٹی الیکشن لڑیں گے۔ 

  اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن  نے بتایا کہ پی ٹی آئی کا 1999 کا آئین ریکارڈ پر موجود ہے،پی ٹی آئی آئین ساز کمیٹی کے کئی ارکان غیرفعال ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، آئین ساز کمیٹی کے چیئرمین حامد خان موجود ہیں،بانی ارکان میں عارف علوی اور اکبر ایس بابر بھی شامل ہی۔ ہم نے پی ٹی آئی کے عبوری آئین کی بھی نقل فراہم کی ہے۔

پی ٹی آئی کو انتخابی نشان چراغ کی جگہ بلا اکبر ایس بابر نے دلوایا

وکیل اکبر ایس بابر کے وکیل نے بتایا کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کو انتخابی نشان بلے کیلئے درخواست اکبر ایس بابر کے ذریعے دی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ 2002 سے پہلے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان کیا تھا۔

اکبر ایس بابر کے وکیل احمد حسن نے بتایا کہ بلے سے پہلے پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چراغ ہوتا تھا۔
 چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اپنے ممبران بارے حقائق تو بتانے چاہیں۔ ممبران کی رائے نہ لیں مگر پی ٹی آئی انکو تسلیم تو کرے۔

چیف جسٹس نے انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف مدعی اکبر ایس بابر سے استفسار  کیا کہ اب پی ٹی آئی انتخابی نشان دینے کا کہہ رہی ہے آپ کیا کہیں گے۔

اکبر ایس بابر کے وکیل نے جواب میں اپنا موقف بتاتے ہوئے کہا کہ جب انٹرا پارٹی انتخابات ہی نہیں ہوئے تو پی ٹی آئی کو انتخابی نشان نہیں مل سکتا۔


مخدوم علی خان نے جواب الجواب کا آغاز کر دیا

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے کہا کہ پی ٹی آئی کہتی ہے الیکشن کمیشن دوہرا معیار اپنا رہا ہے، 

الیکشن کمیشن کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن نے کل ہی 13 سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن ختم کی ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ اے این پی کو شاید لاء اینڈ آرڈر کی وجہ سے دس مئی تک وقت دیا ہے۔

مخدوم علی خان نے وضاحت کی کہ اے این پی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو پانچ سال ابھی پورے نہیں ہوئے تھے۔اے این پی کو مہلت پانچ سال کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دی گئی ہے۔

آئینی ادارہ کے اختیارات

 چیف جسٹس  آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو یہ الیکشن کمیشن کے اختیارات ختم کرنے والی بات ہو گی۔کسی آئینی ادارے کو کیس دائر کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔  ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں درخواست دائر نہیں کر سکتی، الیکشن کمیشن کے خلاف کیسز ہوسکتے ہیں تو وہ اپنا دفاع کیوں نہیں کر سکتا؟ اگر ہائیکورٹ خود اپیل کرے تو بات مختلف ہو گی۔

ہوا میں بات مت کریں، کسی جماعت سے شکایت ہے تو اسے فریق بنائیں

 پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نےالزام لگایا کہ الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف سے رویہ دوسری جماعتوں سے الگ ہے، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا ہے، باقی تمام جماعتوں کو الیکشن کمیشن کچھ نہیں کہہ رہا۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے تو 13 سے زائد جماعتوں کو ختم کر دیا ہے، ایسی بات ہوا میں نہ کریں کسی جماعت سے شکایت ہے تو اسے فریق بنائیں۔

 وکیل پی ٹی آئی حامد خان نے مزید الزام لگایا کہ پی ٹی آئی کا الیکشن کمیشن استحصال کر رہا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا جب پی ٹی آئی حکومت میں تھی کیا تب بھی پی ٹی آئی کا استحصال ہورہا تھا؟ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراض اٹھا رہے ہیں۔

اس سے پہلے کی سماعت

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے  پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے کہا کہ آپ کے دلائل "ڈرامائی" ہیں۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائیں آپ کرا دیتے،جو لوگ انٹرا پارٹی الیکشن پر اعتراض کر رہےہیں ان کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ وہ ممبر ہی نہیں ہیں۔ اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکالنے کا کوئی ثبوت دے دیں۔

وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ کسی اور کیس میں دستاویزات جمع کرائی تھیں، اکبر ایس بابر کا معاملہ تو سپریم کورٹ کے سامنے چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔

  اکبر ایس بابر کے وکیل نے بتایا کہ عمران خان نے ایک شوکاز نوٹس حامد خان کو بھی جاری کیا، شوکاز نوٹس 2019 کو دیا گیا تھا۔  حامد خان نے ( اکبر ایس بابر کی طرف سے) ایک جواب جمع کرایا تھا۔ الیکشن کمیشن اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے اکبر ایس بابر کو پی ٹی آئی کے رکن کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ 

 چیف جسٹس پاکستان  نے مزید کہا کہ فوزیہ قصوری  اور کئی دیگر لوگ پی ٹی آئی کے کارکن ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف انتخابی نشان والا معاملہ دیکھے۔

پی ٹی آئی کے ممبر سامنے کھڑے ہیں، ان کو کیسے نطر انداز کریں

چیف جسٹس پاکستان  نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی کے ممبر سب لوگ ہمارے سامنے کھڑے ہیں ان کو نظرانداز کیسے کریں۔ جو پی ٹی آئی کے اپنے لوگ اعتراض کر رہے انکو کیسے نظرانداز کریں۔

وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ کس کو جماعت کا ممبر رکھنا ہے یا نہیں یہ جماعت کا اندرونی معاملہ ہے۔ 

اس سے پہلے کی سماعت

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کہا پشاور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی زیرالتواء ہے؟ 

احمد حسن وکیل نے بتایا کہ بظاہر ریکارڈ پر ایسی کوئی دستاویز نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر  نے کہا لاہور ہائیکورٹ میں زیر التوا کیس سے پشاور ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا۔

 احمد حسن  وکیل نے کہا کہ عام انتخابات میں کاغذات جمع کراتے وقت ہی پارٹی سے تعلق لکھنا ہوتا ہے۔

صبح سماعت کی ابتدا میں بیرسٹر علی ظفر کے دلائل

چیف جسٹس پاکستان نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کیس کی سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ کہتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو بھی ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباو ڈالے گی؟

  سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کی جانب سے تحریک انصاف کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس کرنے کے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف دائر اپیل پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔

  سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پشاور ہائی کورٹ کا تفصیلی فیصلہ آ گیا ہے جس پر پی ٹی آئی وکیل حامد خان نے کہا کہ فیصلہ پڑھا ہے، پشاور ہائی کورٹ نے بہترین فیصلہ لکھا ہے۔

 دریں اثناء حامد خان کے بلانے پر بیرسٹر علی ظفر دلائل پیش کرنے کیلئے روسٹرم پر آگئے،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آج پارٹی ٹکٹ جمع کرانے کا آخری دن ہے، وقت کی قلت ہے اس لئے جلدی دلائل مکمل کرنے کی کوشش کروں گا۔

 چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس بھی وقت کم ہے کیونکہ فیصلہ بھی لکھنا ہے۔

الیکشن کمیشن کے اختیار اور عدالت کے دائرہ اختیار کے سوالات

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 2 سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں؟،بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نہ تو آئین اور نہ ہی الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزہ کی اجازت دیتے ہیں، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا۔

 انہوں نے مزید کہا کہ آرٹیکل 17 دو ،سیاسی جماعت بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو، کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے،انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انٹراپارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو ، کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے۔ 

 بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے ساتھ جانبدارانہ اور بدنیتی پر مبنی سلوک کیا، بنیادی سوال سیاسی جماعت اور اس کے ارکان ہیں اس لئے شفاف ٹرائل کے بغیر کوئی فیصلہ ممکن نہیں،انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالت نہیں جو شفاف ٹرائل دے سکے، الیکشن کمیشن میں کوئی ٹرائل ہوا ہی نہیں، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرپارٹی انتخابات چیلنج نہیں کئے، انٹراپارٹی انتخابات صرف سول کورٹ میں ہی چیلنج ہو سکتے تھے، الیکشن کمیشن کے پاس سوؤ موٹو اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور اپیلیں بھی۔

علی ظفر نے  کہا کہ انٹرا پارٹی انتخابات جماعت کے آئین کے مطابق کرائے گئے ہیں، پی ٹی آئی نے پہلے 2022 میں انٹرا پارٹی انتخابات کرائے جو الیکشن کمیشن نے تسلیم نہیں کئے،بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا، خدشہ تھا پی ٹی آئی کو انتخابات سے باہر نہ کر دیا جائے اس لئے عملدرآمد کیا، سپریم کورٹ اسی دوران 8 فروری کو انتخابات کا حکم دے چکی تھی، 2 دسمبر کو پی ٹی آئی نے دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے۔

 انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشین میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی موقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا،بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشین کے حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بےضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی۔

 انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لئے انتخابات تسلیم کریں گے نہ ہی نشان دیں گے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کئے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔

جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونا چاہئے

 چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جمہوریت ملک کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے۔ بنیادی سوال جمہوریت کا ہے۔  پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں۔

 اکبر ایس بابر بانی رکن تھے، وہ پسند نہیں تو الگ بات ہے لیکن ان کی رکنیت تو تھی۔ انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے۔  اکبر بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو اس وقت نوٹس کیا جب وہ حکومت میں تھی، الیکشن ایکٹ کی آئینی حیثیت پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ کسی نے چیلنج نہیں کیا، اِس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے،جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈول فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے؟ کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے، کون نہیں؟

اپنے ارکان کو بھی لیول پلئینگ فیلڈ دیں

 انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی، شکایات ملنے پر کارروائی کی۔

 بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔

 چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ انتخابی نشان کیا ہوتا ہے، اچھے سے معلوم ہے۔

 بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پیپلزپارٹی سے ماضی میں تلوار کا نشان لیا گیا، پھر پی پی پارلیمنٹیرین بنی،چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ مسلم لیگ نے بھی ایسا ہی وقت دیکھا لیکن اس وقت حکومت میں کون تھا یہ بھی دیکھنا ہے، آج پی ٹی آئی کے مخالفین حکومت میں نہیں ہیں۔


عدالتِ عظمی کے مختصر فیصلہ کا عکس

سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی پیٹیشن پر تین رکنی بنچ کا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو غیر جمہوری اور قانون کے خلاف قرار دینے کا فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود تحریر کیا۔ پانچ صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ میں قرار دیا گیا کہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ سیاسی جماعتوں کے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائے۔ الیکشن ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعت کے ہر رکن کو انٹراپارٹی الیکشن میں شمولیت کا یکساں موقع ملنا چاہیے۔