(مانیٹرنگ ڈیسک) قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے انسداد دہشتگردی بل 2020 کی منظوری دے دی۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں وزیر قانون فروغ نسیم نے انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2020 پیش کیا، جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کرلیا، حکومتی اتحاد کے علاوہ اپوزیشن کی تینوں بڑی جماعتوں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی (ف) نے بھی انسداد دہشتگردی بل کی حمایت کی۔
بل کے تحت کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والوں کو قرضہ یا مالی معاونت فراہم کرنے پر پابندی ہوگی، کوئی بینک یا مالی ادارہ ممنوعہ شخص کو کریڈٹ کارڈز جاری نہیں کر سکے گا، پہلے سے جاری اسلحہ لائسنس منسوخ تصور ہوں گے اور منسوخ شدہ اسلحہ جات ضبط کر لیے جائیں گے، منسوخ شدہ اسلحہ رکھنے والے کو نیا لائسنس جاری نہیں کیا جائے گا، منسوخ شدہ اسلحہ رکھنے والے کو سزا دی جاسکے گی۔
ترمیمی بل کے مطابق دہشتگردی میں ملوث افراد کو 5 کروڑ روپے تک جرمانہ ہوگا، قانون پر عملدرآمد نہ کرانے والے کو 5 سے 10 سال قید کی سزا ہوگی، دہشتگردی میں ملوث شخص کی سفری دستاویزات اور اکاوَنٹس منجمد کی جاسکیں گی۔
جمیعت علمائے اسلام (ف) نے بھی ایف اے ٹی ایف قانون سازی پر حکومت کی حمایت کردی، جے یو آئی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جہاں پاکستان کا نام آتا ہے تو حکومت اپوزیشن میں فرق نہیں رہتا، ہم بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کوئی اور ہے، دہشتگردی کا کوئی مذہب نہیں، دہشتگردی کی ٹھیک وضاحت کی جائے، ہمارا اعتراض قانون سازی کے طریقہ کار پر تھا، قانون سازی کو شفاف ہونا چاہیے تاکہ کل کو ایوان پر حرف نہ آئے، ہم ملک کی خاطر قانون سازی میں حصہ لیں گے، اللہ کرے پاکستان گرے لسٹ سے نکلے اور ہم سرخرو ہوجائیں۔
ایوان میں کارروائی کے دوران مسلم لیگ (ن) نے انسداد دہشتگردی ایکٹ ترمیمی بل 2020 میں اپنی ترامیم واپس لے لیں۔ رکن قومی اسمبلی محسن شاہ نواز رانجھا نے کہا کہ حکومت نے ہماری تجویز کردہ ترامیم شامل کرلی ہیں، چاہتے ہیں کہ پاکستان کا نام ٹیرر فنانسنگ کی لسٹ والے ممالک سے نکلے۔