سٹی42: خیبرپختونخوا کے افغانستان سے ملحق علاقہ کرم میں ایک مسافر بس پر فائرنگ کے واقعہ میں 11 افراد جاں بحق ہو گئے۔
ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے ابتدا میں اس واقعہ کو دو گروہوں کے درمیان فائرنگ کا واقعہ قرار دیا اور بتایا کہ کنج علی زئی کے علاقے میں دو گروپوں کے درمیان فائرنگ 11 افراد کی جان لے گئی جبکہ 6 افراد زخمی ہوئے ہیں ۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارہ بی بی سے نے عینی شاہدوں کے حوالے سے بتایا کہ بالائی کرم کے علاقہ کونج علی زئی میں ایک سڑک پر سفر کرتی فلائننگ کوچ (درمیانہ سائز کی مسافر وین) پر براہ راست فائرنگ کی گئی جس کی زد میں آ کر لوگ مرے۔ اس مسافر وین پر حملے کے بعد زندہ بچ جانے والے مسافروں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھوں نے براہ راست ہماری فلائنگ کوچ (مسافر ویگن) پر فائرنگ کی۔ جب فائرنگ کی تو اس وقت میں نے کلمہ پڑھ کر آنکھیں بند کر لی تھیں۔۔ مجھے لگا کہ مجھ سمیت کسی کا بھی بچنا مشکل ہے۔ کافی دیر بعد جب فائرنگ کی آواز بند ہوئی اور آنکھیں کھولیں تو میرے ارد گرد زخمی خواتین، بچے اور مرد تھے۔‘
یہ الفاظ ضلع کرم کے علاقے اپر کرم میں کونج علیزئی کے علاقے میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں بچ جانے والے محمد طاہر کا کہنا ہے کہ ’ہمارا قافلہ چار گاڑیوں پر مشتمل تھا۔ ہم لوگ مقبل کے رہائشی ہیں اور ایک روز پہلے قریب ہی کے علاقے میں اپنے ایک رشتہ دار کے جنازے میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ ہفتے کے روز جب ہم لوگ صبح کے وقت تقریباً نو بجے کونچ علیزئی کے علاقے میں پہنچے تو مسلح افراد نے ہمارا راستہ روک لیا۔‘
محمد طاہر کا کہنا تھا کہ ’ہمارا قافلہ سکیورٹی انتظام کے ساتھ چل رہا تھا۔ ہماری فلائنگ کوچ کے علاوہ تین اور چھوٹی گاڑیاں تھیں۔ یہ سب لوگ بھی مقبل کے رہائشی اور جنازے میں شرکت کے لیے گئے تھے۔‘
بین الاقوامی خبر رساں ادارہ نے بتایا ہے کہ اپر کرم پولیس کے مطابق ضلع میں فائرنگ اور تصادم کا پہلا واقعہ گذشتہ روز تھانہ روضہ کی حدود مقبل کے پہاڑی علاقے کنج علیزئی اور اس کے بعد دوسرا واقعہ بھی تھانہ روضہ کی حدود میں آج صبح پیش آیا، جس میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملہ کیا گیا۔
پولیس کے مطابق مسافروں کے قافلے پر ’اندھا دھند‘ فائرنگ کی گئی۔ قافلے میں متعدد مسافر اور نجی گاڑیاں شامل تھیں۔
ضلع کرم میں ہر قسم کے سفر کے لیے پولیس سکیورٹی میں مسافر قافلوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں۔ جس کا مقصد دہشتگردوں کے اچانک حملوں سے محفوظ رہنا ہے۔
مقبل کے علاقے کنج علیزئی کے پہاڑ پر فائرنگ کے واقعہ کے بارے میں پولیس نے بتایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کچھ لوگ مبینہ طور پر شکار کے لیے ان پہاڑوں پر گئے تھے۔
ضلع کرم میں گذشتہ تین ماہ کے دوران اس نوعیت کے واقعات تیسری مرتبہ پیش آئے ہیں اور گذشتہ واقعات میں بھی بھاری جانی نقصان ہوا تھا۔
اس سے قبل ستمبر کے آخری ہفتے میں ہونے والی قبائلی جھڑپیں معمولی مورچے کی تعمیر کے تنازعے پر شروع ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ضلع میں چار مقامات پر آٹھ مختلف قبائل کے درمیان مسلح تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔
ضلع کرم کا شمار ملک کے اب تک قبائلی روایات پر عمل کر رہےعلاقوں میں ہوتا ہے۔
حالیہ واقعات کے باعث علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ سکیورٹی فورسز علاقے میں پہنچ چکی ہیں۔
ڈسڑکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں نو زخمیوں کو پہنچایا گیا تھا جس میں سے ایک زخمی ہسپتال میں دم توڑ گیا جبکہ 10 لاشیں ہسپتال میں پہنچائی گئیں تھیں۔
’حملہ آور کافی زیادہ تھے اور انھوں نے سڑک کو گھیرا ہوا تھا‘
عینی شاہد کہتے ہیں کہ ’جب ہم کونج علیزئی کے علاقے میں پہنچے تو ڈرائیور نے ایک دم چیخ کر بتایا کہ روڈ بلاک ہے۔ سب انتہائی خطرہ محسوس کررہے تھے جبکہ میرا خیال تھا کہ سکیورٹی کی گاڑی موجود ہے تو کچھ نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مگر حملہ آور تعداد میں کافی زیادہ تھے اور انھوں نے سڑک کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا۔’ان میں ہر شخص کے پاس کلاشنکوف تو تھی ہی مگر ان میں سے کچھ کے پاس بڑا اسلحہ بھی تھا۔‘ ’مسلح افراد نے جب اندھا دھند فائرنگ شروع کی تو جو سر نیچے کر گیا وہ محفوظ رہا۔‘
’جب فائرنگ کی آواز بند ہوئی تو ہر طرف زخمی پڑے ہوئے تھے۔ میرے قریب کچھ لوگوں کی سانسیں بند ہوچکی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ قیامت کا سماں ہے۔‘
اس موقع پر سکیورٹی اہلکار بھی خود کو بلند جگہوں سے ہو رہی فائرنگ سے بچانے کے لئے چھپ گئے تھے، بعد میں سکیورٹی اہلکاروں نے زخمیوں کی مدد کرنے کی کوشش کی مگر زخمی بہت زیادہ تھے۔