ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو کسی نئے مقدمہ میں بھی17 مئی تک گرفتار نہ کرنے کا حکم آنے سے کچھ دیر پہلےاسلام آباد پولیس اور پمجاب پولیس کے افسروں کے درمیان اس بات پر جھگڑا پڑ گیا کہ عمران خان کواسلام آباد ہائی کورٹ سے نکلنے کے بعد کون گرفتار کرے گا۔
صحافتی زرائع کاکہنا ہے کہ جمعہ کے روز اسلام آبادد ہائی کورٹ کے باہر موجود پنجاب پولیس اور اسلام آباد پولیس کے افسروں کے درمیان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو ہائی کوررٹ سے نکلتے ہی گرفتار کرنے کے سوال پر پہلے آپس میں تکرار ہوئی پھر بات تلخ کلامی تک پہنچ گئی۔ اسلام آاد پولیس اور پنجاب پولیس کے افسروں کے درمیان پہلے سڑک پر کھڑے کھڑے بحث ہوئی کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کا حق انہیں حاصل ہے۔ بعد میں دونوں فورسز کے افسران کو صحافیوں کی موجودگی کااحسساس پوا تو وہ مزید بات چیت کےلئے سڑک سے ہٹ کر کسی قریبی جگہ چلے گئے۔ ذمہ دار صحافتی زرائع کے مطابق پنجاب پولیس کے افسروں کے پاس ان مقدمات کی فائلیں موجود تھیں جن میں وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کے لئے وہ عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ لاہور سے پنجاب پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز کامران عادل ایلیٹ فورس کی نفری کے ہمراہ جمعہ کی صبح سے سلام آباد ہائی کورٹ میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان نہ صرف گزشتہ دس مقدمات میں تفتیش کے لئے پولیس کو مطلوب ہیں بلکہ 9 مئی کے بعد لاہور میں ہونے والے تشدد کے واقعات میں بھی ان پر مقدمات درج ہیں اس لئے انہیں گرفتارر کرنا ان کاحق ہے۔