پی ٹی آئی قیادت پر توہین مذہب کے مقدمات، اسلام آباد ہائیکورٹ نے فیصلہ سنادیا

اسلام آباد ہائیکورٹ
کیپشن: Islamabad High Court
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

24 نیوز: اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو تحریک انصاف کی  قیادت کے خلاف توہین مذہب مقدمات درج کرنے سے روک دیا۔

سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کی توہین مذہب مقدمات کے خلاف دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کی۔ فواد چودھری اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش ہو ئے۔

فواد چودھری نے عدالت میں موقف اپنایا کہ میں ان مقدمات پر بہت حیران ہوا ہوں ۔ پہلے بھی زیادتیاں بھی ہوئی ہیں مارشل لاء بھی لگے لیکن کسی نے توہین مذہب کے مقدمات نہیں بنائے۔اس وزیرداخلہ سے تو کسی کو کوئی امید نہیں ہے۔ وزیر قانون سے میرا بڑا تعلق ہے لیکن ان پر بڑی حیرانی ہوئی۔ 

فواد چودھری نے مزید کہا کہ ہم نے فساد تو نہیں کرانے ہوتے لاشوں پر سے چل کر تو وزیر نہیں بننا ہوتا۔ انہوں نے ایسا رواج شروع کیا ہے جس کے بہت خطرناک نتائج ہیں۔

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ مذہب کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا خود سے توہین ہے۔ یہ انسانی حقوق کی بہت خلاف ورزی ہے۔ یہ سیاسی قیادت کا کام ہے کہ معاشرے میں بردباری پیدا کریں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ معاشرے میں بردباری نہیں ہو گی اور اس طرح کے کام ہونگے تو پھر تو غلط ہو گا۔ جو ہوا وہ بالکل بھی درست نہیں تھا۔ بادی النظر میں پاکستان میں درج ہونے والے مقدمات درست نہیں ہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اس سے پہلے بھی سیالکوٹ میں افسوسناک واقعہ ہو چکا ہے مشال ملک والا بھی ہوا۔

وکیل نے دلائل دئیے کہ  اسلام آباد پولیس نے رپورٹ دی ہے کہ چار درخواستوں پر انوسٹی گیشن جاری ہے مقدمہ درج نہیں ہوا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ مذہبی جذبات قابل قدر ہیں لیکن ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔ اس عدالت کے پاس ایک درخواست آئی تھی وہ مسترد کر دی ہے۔مذہب کو اس طرح سیاست میں نہیں گھسیٹا جانا چاہیے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے یہ تو حقیقت ہے نہ کہ ریاست نے ماضی میں مذہب کی بنیاد پر ایسی حرکتیں کی ہیں۔ ہوئی یا نہیں ہوئی لوگوں کہ زندگیاں تو خطرے میں پڑی ہیں۔

عدالت نے سوال اٹھایا کہ اس درخواست میں کوئی قابل دست اندازی جرم ہی نہیں تو مقدمہ کیسے درج ہوا؟ 

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے دلائل دئیے کہ متعلقہ عدالت میں مقدمہ خارج کرنے کی درخواست دائر کی جانی چاہیے تھی۔ 

 فیصل چودھری ایڈووکیٹ نے کہا پنجاب میں اس وقت کوئی حکومت موجود نہیں ہے۔ فواد چودھری نے کہا اس مقدمے میں پانچ سات سو لوگوں کو شامل کیا گیا ہے۔ عمران خان، شیخ رشید، قاسم سوری اور شہباز گل کو نامزد کیا گیا ہے۔ہمارا بڑا واضح موقف ہے کہ ہمارا استعفی منظور ہو چکا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم نے تو یہ دیکھنا ہے کہ ڈی نوٹیفائی کیا جا چکا یا نہیں۔

فواد چودھری نے کہا اس طرح تو عثمان بزدار اب بھی وزیر اعلی ہے، یہ ایسا کرتے ہیں کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔  چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا یہ آئین ہی سب کو یکجا رکھ سکتا ہے۔ اس آئین کی پچھلے ستر سال میں بہت بے توقیری ہو چکی۔ سیاسی قیادت کا کام ہے کہ لوگوں کو آگاہ کریں کہ آئین سپریم لاء ہے۔ ادارے بھی اسی آئین کے تابع ہیں،سیاسی قیادت کو اداروں کی قیادت سے یہی امید رکھنی چاہیے کہ وہ آئین کے مطابق کام کریں۔ اگر وہ آئین کے مطابق کام نہیں کرتے تو یہ بھی سیاسی قیادت کا کام ہے کہ انکا احتساب کرے۔ مدینہ منورہ میں جو ہوا وہ افسوسناک ہے لیکن وہ وہاں ہوا ہے۔

فواد چودھری نے کہا لوگ ان مذہبی کیسز کی بنیاد پر کسی کو قتل بھی کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیالکوٹ واقعے سے ریاست نے سبق نہیں سیکھا۔ 

 وکیل قاسم سوری نے کہا قاسم سوری صاحب پر بھی اسی دن حملہ کیا گیا تھا۔ 

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان معاملات کو دیکھے۔ مذہب کو سیاست میں استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ ریاست کیا کرے گی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے کہا مجھے وقت دے دیں میں ہدایات لے لیتا ہوں۔

 چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا ریاست کو چاہیے کہ پوری لیڈرشپ کو بٹھائے۔ یہ طے کیا جائے کہ مذہب کو ٹُول کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے ۔اس سے نقصان بہت ہو چکا ہے۔

وکیل فواد چودھری نے کہا یہ کیسز بنانے سے پہلے ان کو وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ وفاقی حکومت کی کمٹمنٹ ہونی چاہیے کہ وہ مذہبی کارڈ کبھی استعمال نہیں کریں گے۔یہ اس سے قبل کبھی بھی نہیں ہوا، پہلی بار ہو رہا ہے۔

 چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ فواد صاحب اس سے پہلے بھی بہت کچھ اس طرح کا ہوتا رہا ہے۔

وکیل فواد چوہدری نے استدعا کی کہ ہمارے خلاف درج مقدمہ خارج کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جو مقدمہ درج ہوا وہ میں نے دیکھا ہے وہ تو درج ہونا ہی نہیں چاہیے تھا۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے مستقبل میں اس کو کس طرح سے روکا جائے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل  نے کہ الوگوں کے جذبات ہیں پرائیویٹ لوگوں نے درخواستیں دائر کی ہیں۔ جس پر  فواد چودھری  نے کہا اتنے جذباتی ہیں کہ سب نے ایک ہی جیسی درخواست دی ہے۔

 چیف جسٹس  نے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی کے ایم این ایز کو بھی چاہیے تھا کہ استعفے دینے سے پہلے اس معاملے کو دیکھتے۔ 

فواد چودھری  نے کہا قانون تو اس حوالے سے بڑا واضح ہے۔جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا  واضح تو آئین بھی ہے۔ سیاست کے کچھ اصول ہونے چاہئیں مذہب کو اس کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو پی ٹی آئی قیادت کے خلاف توہین مذہب مقدمات درج کرنے سے روک دیا۔  چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس  دئیے کہ بادی النظر میں لگتا ہے کہ یہ مقدمات بنتے ہی نہیں۔مقدمات درج کرنے سے پہلے اس عدالت کو مطمئن کریں کہ یہ مقدمات کیسے بنتے ہیں۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو آئندہ سماعت پر عدالتی معاونت کیلئے طلب کر لیا۔عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتے تک ملتوی کر دی۔

Muhammad Zeeshan

Senior Copy Editor