( قیصر کھوکھر) ملک میں اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے اور وزیر اعظم سے لے کر سبھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ملک میں مہنگائی بڑھ گئی ہے اور اس مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے اور ایک عام آدمی کےلئے روز مرہ کے معاملات چلانا مشکل تر ہو گیا ہے۔
گریڈ ایک کے ملازم کی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار روپے ہے اور اس بیس ہزار روپے میں اس سرکاری ملازم کے گھر کا بجٹ بنانا ایک انتہائی ناممکن کام ہے۔ بچوں کی تعلیم، صحت کی سہولتیں، کچن کے اخراجات پورے کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ۔ اوراگر سرکاری ملازم کے تین بچے بھی ہیں تو یہ تمام اخراجات اور مکان کا کرایہ دینا اس تنخواہ سے پورا کرنا ممکن نہیں ۔ گیس اور بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔
ڈالر کی قیمت انتہائی اونچی سطح پر ہے جس سے ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے اور حکومت یہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے۔ جنرل سٹور کی تمام اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور ادویات کی قیمتوں میں پہلے ہی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔دنیا بھر میں اشیاء کی قیمتوں کو طلب اور رسد سے کنٹرول کیا جاتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک جن میں بھارت، بنگلادیش، سری لنکا جیسے ممالک میں اشیاءکی قیمتوں کو حکومت کنٹرول کرتی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ ملک میں مجسٹریسی نظام نافذ تھا ،اس وقت مجسٹریٹ مارکیٹ اور منڈیوں میں اشیاءکی قیمتوں کو چیک کرتے تھے اور قیمتوں کو تحصیل اور ضلع کی سطح پر مانیٹر کیا جاتا تھا اور ضلع کا ڈپٹی کمشنر قیمتوں کو مانیٹرکرتا تھا، لیکن اب صوبے کے چیف سیکرٹری کو یہ کام کرنا پڑ رہا ہے ۔ چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر نے گزشتہ دنوں لاہور شہر کے مختلف رمضان بازاروں کو چیک کیا۔ ان رمضان بازاروں میں اشیاء سستی تو رکھی گئی ہیں لیکن عوام کی رائے ہے کہ ان رمضان بازاروں میں اشیاءکی کوالٹی بہتر نہیں ، لیکن بہر حال حکومت کی جانب سے رمضان بازار ایک اچھی کوشش ہے اور یہ رمضان بازار سارا سال لگنے چاہئے تاکہ کوئی تو مقام ہو جہاں پر عوام کو سستی اشیاءمل سکیں۔
سبزی منڈیوں کو کنٹرول کرنے کی بھی ضرورت ہے اور سبزی منڈی کے مقام پرسبسڈی دی جائے تاکہ وہاں سے عام مارکیٹوں کو سستی اور معیاری اشیاءمل سکیں۔ حکومت پنجاب نے پورے پنجاب کے رمضان بازاروں کو چیک کرنے اور مانیٹر کرنے کیلئے محکمانہ سیکرٹریوں کو اضلاع کی سطح پر بھیجا ہے تاکہ فرسٹ ہینڈ نالج لیا جا سکے۔ ان رمضان بازاروں میں تو حکومت نے سبسڈی دے کر سستی اشیاءرکھی ہیں لیکن ان رمضان بازاروں کے ساتھ ساتھ عام مارکیٹ اور عام منڈیوں میں ان اشیاءکی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔
کاش حکومت ان رمضان بازاوں کے ساتھ ساتھ عام مارکیٹوں کو بھی چیک کرتی اور ہر جگہ قیمتوں کو کنٹرول کرتی تاکہ کم قیمتوں کا فائدہ ہر صارف کو مل سکے۔ کہا جاتا ہے کہ چیف سیکرٹری اور محکمے کے سیکرٹری کا یہ کام نہیں کہ وہ بازاروں میں قیمتوں کو چیک کریں ۔ شہر کی کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں تو حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ دکاندار من پسند قیمتیںوصول کر رہے ہیں۔ ان قیمتوں کو ریگولیٹ کرنے والا کوئی نہیں۔ یوٹیلیٹی سٹور کا نظام ناکام ہو چکا ہے ،وہاں پر ہڑتالیں ہو رہی ہیں، احتجاج ہو رہا ہے۔
وفاقی حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہے اور پنجاب حکومت نے دکھاوے کے لئے چند رمضان بازار لگائے ہیں۔ بازاروں اور مارکیٹوں میں حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی ہے اور حکومت کی رٹ کمزور تر ہو گئی ہے ۔یہ کہ حکومت محسوس ہی نہیں ہوتی ہے کہ کہیں حکومت بھی موجود ہے ۔چھاپے مارنے کے لئے کوئی انتظامی ڈھانچہ ہی نہیں اور کوئی طریقہ کار ہی نہیں کہ مہنگائی کو کس طرح کنٹرول کیا جائے۔ یہاں پرہر کوئی اپنا اپنا ریٹ لگا کر بیٹھا ہے اور اشیاءفروخت کر رہا ہے ۔
دکاندار روزے بھی رکھتے ہیں اور اشیاءمیں ملاوٹ اور مہنگائی بھی کرتے ہیں۔ ایک گھر میں اگر چار افراد ہیں، ان چاروں کا روزہ کھولنے کا خرچہ بھی کسی بھی طور پر ایک ہزار روپے سے کم نہیں بنتا ہے اور ماہانہ خرچ اور تنخواہ سے بجٹ بنانا مشکل تر ہے ، ان سب مسئلوں کا ایک حل بھی ہے کہ حکومت کو اس کے لئے ایک میکانزم ترتیب دینا چاہئے اور اس کیلئے ایک الگ سے محکمہ بنایا جائے اور سبزی منڈی اور رسد کے مقام پر سبسڈی دی جائے تاکہ عام مارکیٹوں کو سستی اشیاءمل سکیں۔ باہر کے ملکوں میں جب ماہ رمضان آتا ہے تو مارکیٹوں میں دکاندار از خود اشیاءسستی کر دیتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں یہ اشیاءماہ رمضان میں مہنگی ہو جاتی ہیں۔
ایسا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ کوئی میکانزم نہیں، اگر حکومت پرائس کنٹرول کرنے کا میکانزم بناتی ہے تو یہ کنٹرول ہو جائے گی۔ حکومت اگر ملک میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پاسکتی ہے تو مہنگائی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے۔ مہنگائی کوئی دہشت گردی سے بڑا اژدہا تو نہیں۔