(یاور ذولفقار) لاہور ہائیکورٹ نے عاقل بالغ ہونے تک مذہب تبدیلی سے متعلق اہم فیصلہ جاری کر دیا،عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ قانون کے تحت عاقل بالغ ہونے تک بچہ یا بچی اپنی مرضی سے مذہب تبدیل نہیں کر سکتا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے 14 سالہ پمی مسکان کی والدہ ناصرہ کی درخواست پر 7 ماہ بعد تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔شیراز ذکاء ایڈووکیٹ نے عدالتی معاون کے طور پر دلائل دیئے۔سرگودھا کی رہائشی ناصرہ نے اپنی 14 برس کی بیٹی پمی مسکان کی بازیابی کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔لاہور ہائیکورت نے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ مذہب تبدیلی کا معاملہ کسی کے دل اور یقین سے جڑا ہوا ہے۔کوئی عدالت پمی مسکان کے مذہب تبدیلی کو قانونی یا غیر قانونی قرار نہیں دے سکتی۔ پمی مسکان بمشکل 14 برس کی ہے اور عاقل بالغ ہونے کے قانون کے دائرہ میں نہیں آتی۔ پمی مسکان کی والدہ ناصرہ اس کی قانونی وارث ہونے کی حیثیت سے اپنی بیٹی کی تحویل کی حقدار ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 14 سالہ بچی کو اس کی مرضی کے بغیر دارالامان میں نہیں بھجوایا جا سکتا۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 ءکے تحت 15 برس سے کم عمر بچوں سے گھروں میں کام نہیں کروایا جا سکتا۔ تحریری فیصلے میں قرآنی آیات اور احادیث کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے 27 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے کو عدالتی نظیر بھی قرار دیا گیا ہے۔