سندھ کے ساحلی علاقوں کی طرف بڑھتا سمندری طوفان ''بائپر جوائے،سندھ سرکار متحرک،ساحلی علاقوں پر دفعہ 144 نافذ،وفاق کی تعاون کی یقین دہانی

Sea storm,Sindh,Hyper joy,City42
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)سمندری طوفان بائپر جوائے سندھ کے ساحلی علاقوں کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے،کراچی اور دیگر ساحلی علاقوں کو کتنا خطرہ ہے اور چالیس فٹ تک اونچی لہریں کس قدر تباہی مچاسکتی ہیں۔

 طوفان سندھ کے ساحلی علاقوں سے طوفان ٹکرانے والا ہےان خبروں نے جہاں عوام کو فکرمند کردیا ہے وہیں سندھ سرکار بھی خوب متحرک ہے،سمندری طوفان کو بائپر جوائے کا نام دیا گیا ہے اور اب اونچی لہریں مسلسل سندھ کے ساحلوں کی طرف بڑھ رہی ہیں ،ساحلی علاقوں میں دفعہ 144لگاکر عوام کو دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے،ماہی گیروں کو بھی سمندر سے واپس بلالیا گیا ہے۔
ویسے تو یہ طوفان کراچی، ٹھٹھہ، سجاول، بدین، میرپور خاص اور عمر کوٹ کی طرف بڑھ رہا ہے لیکن وزیراعلیٰ سندھ کے مطابق زیادہ خطرہ ضلع سجاول کو ہے،امکان ہے کہ یہ طوفان ساحلی علاقوں سے 15جون کو ٹکرا سکتا ہے،ایسا ہوا تو تیز بارشیں ہوں گی، اتنی تیز کہ اربن فلڈنگ کا خدشہ ہے۔پوری شدت سے طوفان ٹکرایا تو یہ سندھ کی ساحلی پٹی میں 300کلومیٹر اور کراچی میں 100کلومیٹر تک نقصان پہنچاسکتا ہے۔
بلوچستان کی ساحلی پٹی پر بھی لوگوں کو وارننگ دے دی گئی ہے،ماہرین موسمیات کا خیال ہے کہ طوفان اپنا رخ تبدیل کرسکتا ہے،ایسا ہوا تو ساحلی علاقے تباہی سے بچ جائیں گے۔

چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق بپر جوائے 1999 میں آنے والے سمندری طوفان کا ایکشن ری پلے ہے۔اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے  بتایا کہ یہ طوفان اسی روٹ پر سفر کر رہا ہے جس پر 1999 والے طوفان نے سفر کیا تھا۔

’ رفتار بھی و ہی ہے جو کہ 1999 میں تھی اور توقع کی جا رہی ہے کہ یہ طوفان کیٹی بندر سے ٹکرائے گا۔ 1999 والا طوفان بھی کیٹی بندر سے ٹکرایا تھا۔‘

ڈاکٹر سردار سرفراز کے مطابق بپر جوائے بھی تقریبا اسی مقام پر وجود میں آیا جہاں 1999 والا طوفان وجود میں آیا تھا۔ ’ہمیں 1999 والے اور اب کے طوفان میں بہت سے مماثلتیں ملتی ہیں۔‘

واضح رہے کہ کہا جاتا ہے کہ 1999 والا سمندری طوفان اپنی تاریخ کا سب سے بدترین طوفان تھا۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت 189 لوگ ہلاک جبکہ 150 لاپتہ ہوئے تھے اور 138,000 گھر تباہ ہوئے تھے۔ اس طوفان کی وجہ سے 256,000 ایکٹر زرعی زمین تباہ ہوئی تھی اور متاثرین کو کافی عرصے تکعارضی ریلیف کیمپوں میں رہنا پڑا تھا۔

معظم خان 1999 میں میرین اینڈ فشریز ڈیپارٹمنٹ میں ڈائریکٹر جنرل کی خدمات انجام دے رہے تھے اور اس وقت کراچی میں تعنیات میں تھے۔

ان کو 1999 والے سمندری طوفان کے واقعات ابھی بھی یاد ہیں۔ وہ بیپر جوائے کو بھی سیٹلائیٹ کے ذریعے سے مانیٹر کر رہے ہیں۔

معظم خان کا کہنا تھا کہ ’وہ طوفان مئی میں آیا تھا جب کہ یہ جون میں ہے۔ تاریخوں کا معمولی فرق ہے مگر میں سیٹلائیٹ کے ذریعے سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ طوفان ان ہی راستوں پر چل رہا ہے جن راستوں پر 1999 کا طوفان چلا تھا۔‘

معظم خان کا کہنا تھا کہ 1999 کے طوفان نے پاکستان کو ماحولیاتی، معاشی، معاشرتی طور پر ناقابل تلافی نقصاں پہنچایا تھا جس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔’یہ سمندری طوفان انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت میرا خیال ہے کہ حکام اور لوگ ذہنی طور پر اس طوفان سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘’پیشگی اطلاعات کی وجہ سے تیاری کرنا آسان ہوا ہے جبکہ 1999 میں بروقت اطلاعات دستیاب نہیں تھیں۔

وزیر اعلیٰ سندھ کا  ٹھٹہ کے ساتھ واقع ساحلی پٹی کا فضائی معائنہ

 وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سجاول، بدین اور ٹھٹہ کے ساتھ واقع ساحلی پٹی کا فضائی معائنہ کیا،  وزیر اعلیٰ سندھ کے ہمراہ وزیر بلدیات ناصر شاہ، چیف سیکریٹری سہیل راجپوت بھی موجود تھے۔

وزیر اعلیٰ سندھ کو کمشنر حیدر آباد نے سمندری طوفان سے متعلق بریفنگ دی  کہ سمندری طوفان 15 جون کو ٹکرائے گا اور 17 تا 18 جون تک طوفان کا اثر کم ہو جائے گا، طوفان شدت میں معمولی سی کمی کے باعث 13 یا 14 جون کے بجائے اب 15 جون کو ٹکرائے گا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے سندھ حکومت کو یقین دلایا ہے کہ سمندری طوفان سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے وفاقی حکومت کے مکمل تعاون کرے گی، انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے بات کی ہے اور سمندری طوفان سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کی تیاریوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی قیادت میں سندھ حکومت نے جو انتظامات کیے ہیں ان کو سراہتا ہوں ہوں،  انشاء اللہ ہم عوام کے تعاون سے اس صورتحال پر قابو پا لیں گے۔

وزیراعظم نے وزیر اعلی سندھ کے سمندری طوفان کے خطرات سے نمٹنے کے لئے پیشگی انتظامات کو سراہا۔

وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ بحری جہازوں، ماہی گیروں، ساحلی انفراسٹرکچر، سیلاب کے خطرے، ٹھٹہ، بدین اور سندھ کے جنوبی مشرقی علاقوں سے متعلق خدشات پر وفاق اور صوبائی حکومتوں اور اداروں کے درمیان موثر حکمت عملی پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے، متعلقہ علاقوں سے عوام کی بروقت محفوظ علاقوں میں منتقلی یقینی بنائی جائے۔

محکمہ موسمیات کی جانب سے  طوفان کے ممکنہ اثرات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے،اس طوفان کے جنوب مشرقی سندھ کے ساحل تک پہنچنے پر ٹھٹہ، سجاول، بدین، تھرپارکر اور عمرکوٹ اضلاع میں 13 سے 17 جون کے دوران 80 سے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چلنے اور گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش کا امکان ہے۔
13 اور 14 جون سے 16 جون تک کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالہیار، میرپورخاص اضلاع میں 60 سے 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں اور آندھی/گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش کا امکان ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اس حوالے سے سندھ اور بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز، پاک بحریہ، پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی اتھارٹی اور پاکستان کوسٹ گارڈز کے ساتھ مل کر ایڈوائزری اور گائیڈ لائنز جاری کر رہی ہے، تاکہ قومی اور صوبائی سطح پر تمام اسٹیک ہولڈرز چوکنا رہیں اور بروقت اقدامات کریں۔

وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے ٹوئٹ میں کہا کہ ’بائپر جوائے سائیکلون کی درجہ بندی شدید ترین درجے میں کی گئی ہے  کوئی پیش گوئی مشکل ہے، گھبراہٹ سودمند نہیں لیکن بےخبری میں نشانہ بننے سے بہتر ہے کہ خبردار رہتے ہوئے منصوبہ بندی کی جائے، سندھ اور بلوچستان کے تمام متعلقہ محکمے ’ہائی الرٹ‘ رہیں۔