تربت میں نوجوان بالاچ کی ہلاکت؛ بلوچستان ہائی کورٹ نے سی ٹی ڈی کے چار اہلکار معطل کر دیئے

Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: تربت میں بالاچ بلوچ کی ہلاکت کے کیس میں ہائی کورٹ نے کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کے چار اہلکاروں کی معطلی کا حکم   جاری کر دیا ۔

 بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس نذیراحمد لانگو پر مشتمل بینچ نے ایک درخواست پر سماعت کے بعد محفوظ کیا گیافیصلہ سنا دیا۔
 درخواست حکومت کی جانب سے سیشن کورٹ کے سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کے خلاف مقدمے کے اندراج کےخلاف دائر کی گئی تھی –
اس درخواست کی سماعت میں حکومت کی پیروی پراسیکوٹر جنرل جہانزیب ناصر نے کی جبکہ بالاچ کے والد مولا بخش کی جانب سے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ ، عمران بلوچ ایڈووکیٹ اور دیگر پیش ہوئے ۔

بلوچستان ہائیکورٹ نے اپنے حکم میں قرار دیا کہ  فیصلے کے اعلان سے پہلے ہمیں آگاہ کیا گیا کہ سیشن کورٹ کے حکم کے مطابق سی ٹی ڈی کے چار اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے ،  یہ بھی بتایا گیا کہ سٹی پولیس اسٹیشن تربت کے انسپیکٹر نوربخش بلوچ کو انویسٹیگیشن آفیسر مقرر کیا گیا ہے ۔ بالاچ بلوچ کی گرفتاری ، ہلاکت ان کے والد کی مدعیت میں درج تینوں ایف آئی آر کرائمز برانچ پولیس کے حوالے کی جائیں۔

ہائیکورٹ کے فیصلہ میں حکم دیا گیا ہے کہ  ڈی آئی جی کرائمز برانچ پولیس قانون کے مطابق ان ایف آئی آرز کی تحقیقات کے لیے سینیئر آفیسروں کی ٹیم تشکیل دیں۔فیصلے کی نقول آئی جی پولیس بلوچستان اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کو بھیجی جائیں ۔
ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ اس معاملہ کی منصافانہ تحقیقات کے لیے ریجنل آفیسر سی ٹی ڈی مکران عادل عامر،آئی او سی ٹی ڈی عبداللہ کو فوری طور پر معطل کیا جائے ،  ایس ایچ او سی ٹی ڈی تربت عبدالاحد اور سی ٹی ڈی کے لاک اپ انچارج کو بھی فوری طور پر معطل کیا جائے۔

بالاچ بلوچ کی ہلاکت کا کیس

نومبر کے تیسرے ہفتے کے آخر میں تربت میں سی ٹی ڈی نے ایک نوجوان بالاچ کی ہلاکت کو "عسکریت پسندوں کے ساتھ مسلح تصادم" کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیچ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر، تربت کے شمال میں پسنی روڈ پر ہونے والی جھڑپ میں اس نوجوان بالاچ کے ساتھ مزید تین مشتبہ افراد مارے گئے۔

بالاچ کی موت سی ٹی ڈی کا یہ دعویٰ سامنے آنے کے فوراً بعد ہی متنازعہ ہو گئی تھی۔ اس واقعہ سے پہلےسی ٹی ڈی نے اسے 20 نومبر کو پانچ کلو گرام دھماکہ خیز مواد کے ساتھ گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اس کے خلاف 21 نومبر کو ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور اسی دن اسے تربت میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) میں پیش کیا گیا تھا۔ تاہم 22 اور 23 نومبر کی درمیانی شب بالاچ کی لاش کو تربت ٹیچنگ ہسپتال لایا گیا جہاں اس کے اہل خانہ نے اس کی شناخت کی۔

ابتدائی طور پر، سی ٹی ڈی نے ایک مختصر بیان میں کہا تھا کہ پسنی روڈ پر انٹیلی جنس کی بنیاد پر آپریشن میں چار شدت پسند مارے گئے۔ شام کے بعد، ایک مزید تفصیلی بیان میں، سی ٹی ڈی نے وضاحت کی کہ بالاچ کی جانب سے فراہم کردہ اطلاع کی بنیاد پر، سی ٹی ڈی کی ایک ٹیم نے ایک گھر پر چھاپہ مارا جہاں باغیوں نے پناہ لی تھی۔

وہاں پر فائرنگ کے تبادلے کے دوران بالاچ سمیت تین باغی مارے گئے۔ بالاچ کی اس مبینہ فائرنگ کے دوران وہاں موجودگی کے بارے میں سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ گائیڈ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ سی ٹی ڈی نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بالاچ کی موت باغیوں کی فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی۔

بالاچ کے ورثا کا موقف

بالاچ کی مبینہ انکاأنٹر میں ہلاکت کے دعوے سامنے آنےکے فوراً بعد، بالاچ کے اہل خانہ نے سی ٹی ڈی کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے 29 اکتوبر کی رات کو ان کے گھر سے زبردستی لے جایا گیا اور تقریباً ایک ماہ بعد اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔ انہوں نے سی ٹی ڈی پر اسے ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام لگایا۔

تربت میں بالاچ کی میت کو لے کر احتجاجی مظاہرہ

  ہفتہ 25 نومبر کو تربت میں بالاچ کی میت کے ساتھ   سینکڑوں مرد، خواتین اور بچوں نے شہید فدا چوک سے سیشن کورٹ تک احتجاجی ریلی نکالی اور عدالت کے باہر دھرنا دیا۔

25 نومبر کو سیشن جج نے تربت سٹی پولیس کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) کو سی ٹی ڈی کے ریجنل آفیسر (آر او)، تفتیشی افسر (آئی او) اور لاک اپ افسر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سیشن جج کی ہدایت کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں کی گئی اور بالاچ کی لاش شہر کے مرکزی چوک پر رکھ کر احتجاج جاری رہا۔ اس کے بعد، صوبائی حکومت، جس کی نمائندگی پراسیکیوٹر جنرل نے کی، نے 30 نومبر کو بی ایچ سی سے رجوع کیا، اور اس سے سیشن جج کے حکم کو کالعدم کرنے کی درخواست کی۔ تاہم ہائی کورٹ نے اس معاملے کی مزید سماعت تک سیشن جج کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔

ہفتے کے روز سی ٹی ڈی کے چار اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔

  احتجاج کرنے والےمظاہرین نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ بالاچ کے قتل کا مقدمہ سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف درج کیا جائے۔ دھرنے میں حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت رحمان، بی این پی کے قائم مقام سربراہ ساجد ترین ایڈووکیٹ اور دیگر ن سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی اور مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیا۔  سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی بلوچ کے قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ 

سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ کا اندراج

25 نومبر کو ہی بلوچستان کے ضلع کیچ کی ایک مقامی عدالت نے پولیس کو بالاچ بلوچ کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے سلسلے میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کی ہدایت کی۔

  ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کیچ عبدالحکیم نے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) تربت سٹی کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ سی ٹی ڈی اہلکاروں ک  ریجنل آفیسر (آر او)، تفتیشی افسر (آئی او) اور لاک اپ افسر کے خلاف ایف آئی آر  درج کریں اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ فاضل جج نے یہ حکم ہفتہ کو متوفی کے ورثاء کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست پر دیا۔تاہم سیشن جج کی ہدایت کے باوجود ایف آئی آر درج نہیں کی گئی اور بالاچ کی لاش شہر کے مرکزی چوک پر رکھ کر سینکڑوں افراد کا احتجاج جاری رہا۔

صوبائی حکومت کا ہائی کورٹ سے رجوع

 اس احتجاج کے بعد، صوبائی حکومت، جس کی نمائندگی پراسیکیوٹر جنرل نے کی، نے 30 نومبر کو بی ایچ سی سے رجوع کیا، اور اس سے سیشن جج کے حکم کو کالعدم کرنے کی درخواست کی۔ تاہم ہائی کورٹ نے اس معاملے کی مزید سماعت تک سیشن جج کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔ ہفتے کے روز سی ٹی ڈی کے چار اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔