ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

عمران خان کے لیے بڑا ریلیف ، نواز شریف کو بڑی شکست

عمران خان کے لیے بڑا ریلیف ، نواز شریف کو بڑی شکست
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

عامر رضا :تھا جس کا انتظار وہ شاہکار آگیا ، آج اٹک جیل میں عمران خان خوش ہو رہے ہوں گے وہ قید میں بھی اپنے حریف اول کو وہ سیاسی شکست دینے میں کامیاب ہوگئے ہیں جس کا چند گھنٹے پہلے تک وہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ، عمران خان کے لیے چہار جانب سے مایوسیاں ہی مایوسیاں تھیں،دوست دوست نہ رہے تھے ،الیکشن کا طبل جنگ بجا دیا گیا تھا تنہائی میں رہنے سے زبردست تناؤ کا سامنا تھا لیکن آج سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے بقول فیض احمد فیض

جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم 

 جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ روز سابق اتحادی حکومت میں بننے والے  سپریم ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیخلاف کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا 86 صفحات کے اس 87 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی شامل جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ 33 صفحات پر مشتمل ہے  اس کے مستقبل پر کیا اثرات ہوں گے اس سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہے کیا ،تین رکنی مشہورعام ہم خیال بنچ جس میں چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطاء بندیال ، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں نے جو فیصلہ دیا اس کے مطابق  سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ2023 ء آئین سے متصادم ہے،سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کالعدم قرار دیتی ہے ،سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پارلیمان کی قانون سازی کے اختیار سے تجاوز ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی کوئی قانونی حثیت نہیں، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی،سپریم کورٹ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا،سپریم کورٹ سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے، قانون کو کالعدم قرار دینے میں عدالت بہت محتاط رہتی ہے، سپریم کورٹ نے بہت محتاط طریقے سے ایکٹ کو پرکھا۔

تفصیلی فیصلہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کا جائزہ آئین کے ساتھ لیا گیا، ہر ممکن کوشش کی کہ دیکھا جائے کہ ریویو ایکٹ آئین سے ہم آہنگ ہے یا نہیں، عدالت اسی نتیجے پر پہنچی کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ واضح طور پر آئین کی بیشتر شقوں کے خلاف ہے، فیصلہ کسی بھی صورت سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین سے ہم آہنگی نہیں رکھتا، سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام نظرثانی اپیلیں آرٹیکل 188 کے تحت ہی دائر کی جا سکتی ہیں، ریویو آف ججمنٹ ایکٹ کو  اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو، فیصلہ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا، تمام متاثرہ سائیلن سپریم کورٹ سے رجوع کرنا شروع کردیں گے،سپریم کورٹ اس بات کو سامنے رکھے بغیر اپیلیں آئیں گی کہ جو فیصلے دیئے گئے ان پر عملدرآمد بھی ہوچکا،عدالتوں کا فرض ہے کہ وہ آئین کا تحفظ اور دفاع کریں، عدالتوں کو آئین کی حکمرانی قائم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کی شق دو میں کہا گیا نظرثانی کو اپیل جیسا درجہ ہوگا، فیصلہ یہ قانون نظرثانی کا دائرہ وسیع کرنے تک محدود نہیں بلکہ پورا دائرہ اختیار بدلا گیا۔

جسٹس منیب اختر کا تفصیلی فیصلے میں اضافی نوٹ کچھ یوں ہے  اپیل اور نظرثانی مترادف نہیں بلکہ مختلف چیزیں ہیں، پارلیمان کا قانون سازی اور سپریم کورٹ کے پاس رولز بنانے کے اختیارات برابر ہیں، پارلیمان کی سادہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز کو غیرموثر نہیں کیا جا سکتا،جسٹس منیب اخترکیا پارلیمان کی طرف سے ہدایت کی جا سکتی ہے کہ نظرثانی کو اپیل جیسا سمجھا جائے؟ اصول ہے کہ عدالت میں پہلے سے طے شدہ معاملہ دوبارہ نہیں اٹھایا جا سکتا، نظر ثانی کا دائرہ اختیار اسی اصول کے ساتھ جڑا ہے، ایکٹ کے بعد آرٹیکل 184 کے مقدمات میں کبھی بھی فل کورٹ نہیں بن سکے گا،اہم مقدمات میں فل کورٹ کی تشکیل نہ ہونا سپریم کورٹ کے انتہائی اہم اصول کو ختم کرتا ہے، چیف جسٹس کا بنچ کی تشکیل کا اختیار انصاف کی فراہمی کیلئے اہم ہے، ایکٹ کے سیکشن 2,3 آئین کے آرٹیکل 188 میں دیئے گئے عدالتی اختیار سے متصادم ہیں۔ 

اس فیصلے کا آنا تھا کہ میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوگیا جو اس قدر ذیادہ تھا کہ اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے بشریٰ بی المعروف پنکی پیرنی کی ڈائری کو منظر عام پر لانا پڑا ، اس فیصلے سے ذیادہ اس کی ٹائمنگ اہم ہے یہ فیصلہ 19 جون سے محفوظ تھا اب کہاں محفوظ تھا اس کے پوچھنے کا آپ کو حق نہیں گھر میں ہو ، عدالت میں یا ساس کے گھر کوئی یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتا ، اس ایک فیصلے سے بادی النظر میں چیف جسٹس آف پاکستان کو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر یا اکبر بادشاہ جیسی مرکزیت حاصل ہوگئی ہے جیسے شہنشاہ ہندوستان کے دربار میں اکبر بادشاہ نے جو فیصلہ دے دیا تو دے دیا اس پر اپیل کا حق کسی کو کسی فورم میں نہیں تھا اس قانون کے تحت جسٹس گلزار سے ثاقب نثار اور ثاقب نثار سے جناب عمر عطاء بندیال نے خوب فیصلے کیے اور کسی کو ان پر اپیل کا بھی حق نہیں ہے اسی قانون کے تحت انصاف کو جمہوریت اور انصاف کی روح کے مزید نزدیک لانے کے لیے سو موٹو کیسز کا فیصلہ کرنے کے لیے 3 سنیئر ترین بشمول چیف جسٹس کے پینل کو اختیار دیا گیا اور یہی طریقہ کار بنچز بنانے کے لیے بھی لاگو ہونا تھا لیکن اب اس قانون کو کالعدم قرار دے دیا گیا ۔

پاکستان مسلم لیگ ن اور ان کے اتحادیوں کے مطابق یہ فیصلہ ایک ماہ کا ہے جس کے بعد ایسے چیف جسٹس ہوں گے جو خود پسندی سے ذیادہ مشاورت اور تحریک انصاف سے ذیادہ انصاف کو ترجیع دینے والے ہوں گے نئی حکومت بنے گی تو قانون کی موشگافیاں بھی دور کردی جائیں گی جس کے بعد انصاف ملے یا نہ ملے مظلوم کو اپیل کا حق تو ملے گا ۔