شہری کی آزادی ، جان کو خطرہ ہو تورجسٹرار کو  ہر وقت درخواست دی جاسکتی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

cj athar minullah & islamabad high court
کیپشن: cj athar minullah & islamabad high court
سورس: goolge
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنیچر کے روز رات دیر گئے عدالت کے دروازے کھولنے کی وضاحت  کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی شہری کی آزادی یا جان کو خطرے  یا کسی اور اہم معاملے میں لاحق خطرے کے پیش نظر رجسٹرا ر کو کسی بھی وقت درخواست دی جاسکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ  کی طرف سے جاری کردہ  بیان میں کہا گیا ہے  کہ 9 اپریل 2022 کو رات گئے پٹیشنز کی فائلنگ کو غلط رپورٹ کیا گیا ہے اور سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیا طے شدہ عدالتی اوقات کے بعد درخواستیں پیش کی جا سکتی ہیں۔

اپنے بیان میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 11 نومبر 2019 اور 10 فروری 2021 کو جاری کیے گئے دو سرکلرز کا حوالہ دیا جس میں ’عدالتی وقت کے بعد درخواستوں کو پیش کرنے کا طریقہ‘ بتایا گیا تھا۔

ان سرکلرز کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ نے مطلع کیا تھا کہ کسی شہری کی جان یا آزادی یا کسی اور اہم معاملے کو لاحق خطرے کی صورت میں رجسٹرار آفس درخواست وصول کر سکتا ہے اور عدالتی اوقات کار کے بعد بھی اسے چیف جسٹس تک پہنچا سکتا ہے۔

اور معزز چیف جسٹس اگر سمجھتے ہوں کہ معاملہ انتہائی ہنگامی نوعیت کا ہے، تو وہ کسی بھی وقت کیس لگانے کا حکم دے سکتے ہیں۔

9 اپریل کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر نے عدالت سے رجوع کیا اور آئین کے آرٹیکل 187 کے تحت درخواست دائر کرنے کے بارے میں استفسار کیا۔

پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے بیان میں ان درخواستوں کا حوالہ دیا گیا جس میں ایک ’پیشگی‘ آئینی پٹیشن بھی شامل تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ اس وقت کے وزیر اعظم کو آرمی چیف کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے روکا جائے۔

اس سلسلے میں کہا گیا کہ اس دوران کچھ اور درخواستیں پیش کی گئیں جنہیں معزز چیف جسٹس کی رہائش گاہ پر پہنچا دیا گیا، جو اس بات پر مطمئن تھے کہ نہ تو درخواستیں کارروائی شروع کرنے کی ضمانت دیتی ہیں اور نہ ہی انہیں عدالتی حکم کی منظوری کی ضرورت ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ ایک آئینی عدالت کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ انتہائی ہنگامی نوعیت اور اہمیت کے حامل مقدمات کو طے شدہ اوقات کے بعد بھی کسی بھی وقت پیش کیا جائے اور معزز چیف جسٹس اگر سمجھتے ہوں کہ معاملہ انتہائی ہنگامی نوعیت کا ہے، تو وہ کسی بھی وقت کیس لگانے کا حکم دے سکتے ہیں۔