نائن الیون کی 20ویں برسی ۔۔ جب دنیا بدل گئی

 نائن الیون کی 20ویں برسی ۔۔ جب دنیا بدل گئی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( ویب ڈیسک) نائن الیون کی 20ویں برسی :11 ستمبر 2001 کو 19 دہشت گردوں نے 4 کمرشل طیاروں کو اغوا کیا،امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ دار القاعدہ کے سرغنہ اسامہ بن لادن پر عائد کی تھی۔حملوں کے وقت اسامہ بن لادن افغانستان میں تھے جہاں طالبان کی حکومت تھی۔  1990 کی دہائی کے اواخر میں افغانستان پر حکمرانی کرنے والے طالبان نے ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قبضہ جما لیا ہے۔

 تفصیلات کے  مطابق 11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے حملوں میں تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ نے ان حملوں کی ذمہ دار القاعدہ کے سرغنہ اسامہ بن لادن پر عائد کی تھی۔ حملوں کے وقت اسامہ بن لادن افغانستان میں تھے جہاں طالبان کی حکومت تھی۔ طالبان نے اسامہ کی گرفتاری اور امریکہ حوالگی کے امریکی مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔
طالبان کو پسپا ہونا پڑا مگر وقت گزرنے کے ساتھ انھوں نے خود کو پھر سے منظم کر لیا اور غیر ملکی اور افغان سکیورٹی فورسز کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں۔ اس عرصے میں دوسرے ممالک کی افواج بھی امریکی افواج کی مدد کو آ گئیں۔

11 ستمبر 2001 کی صبح۔ دو بوئنگ 767 طیارے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے جڑواں ٹاورز سے ٹکراتے ہیں۔ 110 منزلوں کے ساتھ یہ نیو یارک کی سب سے اونچی عمارت تھی۔  پہلا طیارہ شمالی ٹاور سے آٹھ بج کر 45 منٹ پر ٹکرایا۔ عمارت میں 102 منٹ تک آتشزدگی رہی اور پھر 10 بج کر 28 منٹ پر یہ صرف 11 سیکنڈ میں گِر گئی۔ پہلے طیارے کی ٹکر کے 18 منٹ بعد ایک دوسرا طیارہ جنوبی ٹاور سے ٹکرایا۔ اس میں 56 منٹ تک آتشزدگی ہوئی اور پھر نو بج کر 59 منٹ پر یہ نو سیکنڈ میں گِر گیا۔ ان حملوں میں 2606 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔ امریکا نے  القاعدہ پر الزام عائدہ  کرتے ہوئے   امریکہ کی قیادت میں مغربی افواج افغانستان میں دسمبر سنہ 2001 میں داخل ہوئیں ،   طالبان کا امریکا کےساتھ2020 میں  امن معاہد طے پایا۔ امریکہ کے ساتھ سنہ 2020 کے امن معاہدے کے تحت طالبان نے القاعدہ یا کسی دوسرے شدت پسند گروپ کو اپنے کنٹرول والے علاقوں میں کام کرنے کی اجازت نہ دینے پر اتفاق کیا ہے۔

دو دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد امریکی فوج کے مکمل انخلا سے 2 ہفتے قبل 15 اگست کو طالبان نے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔طالبان جنگجوؤں نے افغانستان بھر میں دھاوا بولا اور کچھ ہی دنوں میں تمام بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا جبکہ امریکی اور اس کے اتحادیوں کی تربیت یافتہ اور ان کے ہتھیاروں سے لیس افغان سکیورٹی فورسز کچھ نہ کر سکیں۔

  دوسری جانب31اگست2021 کو  افغانستان سے 20سال بعد امریکی فوج کا انخلا مکمل ہوگیا تھا۔میجر جنرل کرس ڈوناہو امریکا روانہ ہونے والے سی 17 طیارے میں سوار ہونے والے وہ آخری امریکی فوجی تھے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے لیے 31 اگست کی ڈیڈلائن طے پائی تھی۔ امریکی انخلا مکمل ہونے پر طالبان نے ہوائی فائرنگ کر کے جشن منایا۔

1990 کی دہائی کے اواخر میں افغانستان پر حکمرانی کرنے والے طالبان نے ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قبضہ جما لیا ہے۔2001 میں افغانستان پر امریکا کی قیادت میں کیے جانے والے حملے نے طالبان کا تختہ الٹ دیا تھا لیکن وہ کبھی ملک سے گئے نہیں تھے۔ حالیہ دنوں میں جب طالبان نے ملک بھر میں قبضہ کرنے کی کوشش کی تو مغربی حمایت یافتہ حکومت جو 20 برس سے ملک چلارہی تھی، اس قبضے کے نتیجے میں اپنے خاتمے کو جاپہنچی۔ اس وقت افغان شہری اپنے مستقبل کو لے کر خوفزدہ ہیں

افغان صدر اشرف غنی 15 اگست کو ملک چھوڑ کر چلے گئے جب طالبان نے ملک بھر پر قبضہ کیا تو صدر اشرف غنی نے ہار مان لی اور کچھ عوامی بیانات دیے۔ 15 اگست کو جب طالبان دارالحکومت کابل پہنچے تو انہوں نے افغانستان چھوڑ دیا اور بعد ازاں یہ کہا کہ مزید خونریزی سے بچنے کے لیے انہوں نے ملک چھوڑنے کا انتخاب کیا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک پریس کانفرنس میں عبوری حکومت کیلئے کابینہ کے اراکین کے ناموں کا اعلان کیا۔ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ ملا محمد حسن اخوند افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ہوں گے جبکہ ملا عبدالغنی برادر اورمولوی عبدالسلام حنفی نائب وزرائے اعظم ہوں گے۔