(قیصر کھوکھر) پنجاب کی نوکر شاہی نے وزیر اعلیٰ کی اوپن ڈور پالیسی ہوا میں اڑا دی ہے اور اپنے دفاتر کے دروازے عوام اور سائلین کے لیے بند کر دیے ہیں۔ حالانکہ وزیر اعلی شہباز شریف نے نوکر شاہی کو حکم دے رکھا ہے کہ دن گیارہ سے ایک بجے کے دوران تمام سیکرٹریز اور ایڈیشنل سیکرٹریز اور ڈپٹی سیکرٹریز اپنے اپنے دفاتر کے دروازے کھلے رکھیں اور اس دوران عوام کی شکایات سنیں اور سائلین کے مسائل حل کریں اور سائلین اور عوام کے روز مرہ کے کام کریں اور خاص طور پر صوبے کے دُور دراز علاقوں سے آئے سائلین کو ریلیف دیں۔ لیکن پنجاب سول سیکرٹریٹ میں یہ نوکر شاہی کسی کے بھی کنٹرول میں نظر نہیں آتی۔
چیف سیکرٹری پنجاب، ایڈیشنل چیف سیکرٹری سمیت تمام محکموں کے سیکرٹریز وزیر اعلیٰ پنجاب کی اوپن ڈور پالیسی کو فالو نہیں کر رہے اور بے چارے سائلین کو یا تو سول سیکرٹریٹ میں داخل ہی نہیں ہونے دیا جاتا اور اگر وہ کسی طرح پنجاب سول سیکرٹریٹ میں داخل ہو جاتے ہیں تو انہیں کسی سیکرٹری سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ہر محکمہ کے سیکرٹری نے اپنے دفتر اور کمرے کے باہر دربانوں کی ایک فوج بٹھا رکھی ہے جس کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ کسی سائل کو دفتر میں داخل نہ ہونے دے۔ یہ دربان نہ صرف سائلین کو نوکر شاہی سے ملنے سے روکتے ہیں بلکہ سائلین کے ساتھ بد تمیزی بھی کرتے ہیں ۔ یہ بے چارے سائلین ایک دفتر سے دوسرے دفتر چکر لگانے اور بالآخر جونیئر سٹاف کے ہاتھوں بلیک میل ہونے اور کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے کام کرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اگر آئی جی آفس جانے کا اتفاق ہو تو یہ ایک قلعہ نما عمارت میں تبدیل ہو چکا ہے۔ جہاں پر سیکورٹی کے نام پر سائلین کو پریشان کیا جاتا ہے اور تھانوں، اضلاع کے ڈی پی او اور ڈی سی آفس کی طرح آئی جی آفس اور پنجاب سول سیکرٹریٹ بھی عوام کیلئے نو گو ایریا میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ لاہور شہر کے ڈی سی آفس اور ڈی آئی جی آپریشنز کے دفاتر مکمل طور پر نو گو ایریاز ہیں۔ اس ساری صورت حال میں آخر عوام کہاں جائیں۔
اضلاع میں افسران عوام کو ملتے ہی نہیں، وہ صرف ایم این اے اور ایم پی اے کو ہی ملنا گوارا کرتے ہیں۔ اگر یہ نوکر شاہی عوام اور سائلین کو براہ راست ملنا شروع کر دیں تو بہت سارے مسائل از خود حل ہو جائیں گے اور عوام کی اخلاقی فتح بھی ہوگی اور جونیئر سٹاف کو یہ معلوم ہوگا کہ اگر انہوں نے میرٹ پر کام نہ کیا تو یہ سائلین فوری طور پر سینئر افسر کو ملنے کی دسترس رکھتے ہیں، لہٰذا جونیئر افسر کے دل میں ایک انجانا خوف ہوگا اور سائلین کے نچلی سطح پر ہی کام ہونے لگ جائیں گے اور ساتھ ساتھ سینئر نوکر شاہی کو فیلڈ کے افسران کا فیڈ بیک بھی ملتا رہے گا اور فیلڈ کے دفاتر ساتھ ساتھ فعال بھی رہیں گے۔
لیکن پنجاب سول سیکرٹریٹ کی صورت حال یہ ہے کہ افسران سارا دن ایوان وزیر اعلیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایوان وزیر اعلیٰ کے چکر لگانے یں مصروف رہتے ہیں اور دفاتر میں بیٹھے سارا دن ایوان وزیر اعلیٰ کے دبے گئے کاموں اور اجلاسوں کی تیاری میں مصروف رہتے ہیں اور پھر سارا دن ایوان وزیر اعلیٰ اجلاس میں شرکت کے لیے چلے جاتے ہیں۔ پنجاب کے اہم انتظامی محکموں کے سیکرٹریوں کو وزیر اعلیٰ نے مختلف نوعیت کے کام اور اجلاسوں کی پراگریس ذمہ لگا رکھی ہوتی ہے جس کی تیاری میں یہ افسران اپنے ماتحت سٹاف کو بھی مصروف رکھتے ہیں اور اس
طرح بے چارے عوام دفاتر کے چکر لگانے اور رسوا ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام سیکرٹریوں ، کمشنرز، ڈی سی ، آر پی او اور ڈی پی او، اے سی اور ڈی ایس پی کو اوپن ڈور پالیسی کا پابند کریں اور ایوان وزیر اعلیٰ میں بیٹھے افسران کو یہ ہدایت کریں کہ وہ سول سیکرٹریٹ کے افسران کو بے جا مصروف نہ کریں اور نہ ہی ان سیکرٹریوں کو اجلاسوں کے لیے ایوان وزیر اعلیٰ بلا کر کئی کئی گھنٹے انتظار کرایا جائے۔ چیف سیکرٹری کیپٹن (ر) زاہد سعید اپنی ڈیوٹی کا اکثر وقت وزیر اعلیٰ کے اجلاسوں کے سلسلہ میں اپنے دفتر سے باہر رہتے ہیں ۔
اوپن ڈور پالیسی سے عوام کو قدرتی طور پر ایک ریلیف ملتا ہے اور جب ایک افسر دفتر میں موجود ہوگا تو سائل کا آدھا کام یہیں پر ہو جائے گا لیکن اگر سینئر افسران ہی دفاتر سے اجلاسوں کے بہانے غائب ہونگے تو جونیئر سٹاف کا اللہ ہی حافظ ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے، اب پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ کو چاہیے کہ وہ اوپن ڈور پالیسی کی خلاف ورزی کا نوٹس لیں اور خاص طور پر تحصیل، ضلع کی سطح پر قلعہ نما بند دفاتر کو عوام کے لیے کھول دیں تاکہ عوام اپنے کام ہونے پر سکھ کا سانس لے سکیں۔ الیکشن کیلئے یہ بہترین موقع اور حکمت عملی ہو سکتی ہے کہ عوام کے مسائل حل ہوں، عوام اپنا نجات دہندہ اسے ہی سمجھتے ہیں جو اس کے مسائل حل کروائے اور موجودہ حکومت کے لیے یہ بہترین موقع ہے۔