ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مائی لارڈ ، مجھے توہین کرنے کی اجازت دی جائے! انوکھا کیس، انوکھی منطق

عامر رضا خان

مائی لارڈ ، مجھے توہین کرنے کی اجازت دی جائے! انوکھا کیس، انوکھی منطق
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

کیس ہی دلچسپ ہے اور اس کا فیصلہ بھی دلچسپ ہی ہوگا اگر ہوا؟ قصہ ہے ایک ایسی ریاست کا جہاں جھوٹ کا بول بالا اور سچ کا منہ کالا کا رواج عام ہے ،جو جتنا بڑا جھوٹا وہ اتنا بڑا لیڈر جب یہ اصول طے پا گیا اور معاشرے میں رواج پا گیا تو پھر کیا تھا ہر جانب سے جھوٹ کی ندیاں بہنے لگیں ،اس گندی گنگا کے بہتے ڈالرز سے سب منہ دھونے لگے ،ظاہر ہے جھوٹ سچ کی تمیز ختم ہوئی، سوشل میڈیائی مخلوق اپنے جھوٹ کے ننگے ناچ کا مظاہرہ سرعام کرنے لگی سچ دبتا گیا، یہاں تک کے دفن ہی کیا جانے لگا کوئی کسی کو سچا مانے یا نہ مانے لیکن جھوٹ پر یقین کرنے لگا ہٹلر کے وزیر نشریات جوزیف گوئبل کا مشہور معقولہ کہ " جھوٹ اس شدت سے بولو کہ سچ لگنے لگے" کو ان نا معقول مخلوق نے اپنایا اور ایسا اپنایا کہ آج تک قوم ہر جھوٹ کے گرداب میں پھنستی چلی جارہی ہے۔
اس جھوٹ کی نگری میں سچ کو نکالنے کے لیے حکومت پنجاب نے قانون ہتک عزت لانے کا فیصلہ کیا ۔ اس بل کے مطابق بل کا اطلاق پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا پر ہوگا، بل کے تحت پھیلائی جانے والی جھوٹی اور غیر حقیقی خبروں پر ہتک عزت کا کیس ہو سکے گا،بل کا یوٹیوب ، ٹک ٹاک، ایکس/ٹوئٹر، فیس بک، انسٹا گرام کے ذریعے پھیلائی جانے والی جعلی خبروں پر بھی اطلاق ہوگا، کسی شخص کی ذاتی زندگی اور عوامی مقام کو نقصان پہنچانے کےلئے پھیلائی جانے والی خبروں پر قانون کے تحت کارروائی ہوگی، ہتک عزت کے کیسز کےلئے خصوصی ٹربیونلز قائم ہوں گے جو چھ ماہ میں فیصلہ کرنے کے پابند ہوں گے،بل کے تحت تیس لاکھ روپے کا ہرجانہ ہوگا۔آئینی عہدوں پر موجود شخصیات کے خلاف الزام کی صورت میں ہائی کورٹ کے بنچ کیس سننے کے مجاز ہوں گے،خواتین اور خواجہ سرائوں کےلیے کیس کےلئے قانونی معاونت کےلئے حکومتی لیگل ٹیم کی سہولت میسر ہوگی،اس بل کی حسب روایت اپوزیشن اور حسب ذائقہ سوشل میڈیائی صحافیوں نے کُھل کر مخالفت کی اسی لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے گورنر نے اس بل پر دستخط کرنے سے منع کردیا لیکن مخالفت بھی نا کی آئین گروں نے اس کا راستہ یہ نکالا کہ گورنر صاحب کو چھٹیوں پر بھیجا  اور سپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کو قائم مقام گورنر بنایا اور اس صحافی دوست بل کو منظور کرالیا ۔

اور اب سے ایک روز قبل اس بل کو باقائدہ گزٹ کا حصہ بنا کر نوٹیفائی کردیا ہے یعنی یہ بل اب مکمل قانون بن چکا ہے اس حوالے سے جو خبر آئی اُس کے مطابق  ہتک عزت ایکٹ 2024 کا پنجاب حکومت نے گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے،  پنجاب میں ہتک عزت ایکٹ 2024 باقاعدہ نافذ کردیاگیا ۔
ہتک عزت بل کے تحت ٹرائل سے قبل 30 لاکھ روپے تک ہرجانہ بھجوایا جا سکے گا،پنجاب میں ہتکِ عزت کا نیا قانون بن گیا پنجاب حکومت نے پنجاب ڈیفیمیشن ایکٹ 2024کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری ہوگیا۔قائمقام گورنر ملک احمد خان نے چند روز قبل دستخط کئےہتک عزت بل کے گزت نوٹیفکیشن کے بعد اس کا پنجاب میں فوری نفاذ ہوگا پنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ نے ہتک عزت ایکٹ 2024 کو باضابطہ قانون ڈکلئیر کردیا۔
کوئی تو مجھے یہ سمجھائے کہ اس قانون میں ایسا کیا غلط ہے کہ اسے چیلنج کیا جارہا ہے یہ تو سب کے لیے یکساں قانون ہے اس میں کسی شخصیت ، ادارے یا چند افراد کو مقدس گائے ڈکلیئر نہیں کیا گیا سب کو مکمل عزت اور تکریم دینے کی بات کی گئی ہے یہ نہیں کہ آپ کے پاس ایک موبائل اور مائیک ہو تو آپ جس پر جو چاہیں الزام دھریں اسے سوشل میڈیا کی زینت بنائیں اور اگر جھوٹ بڑا ہو تو اس سے موٹی رقم کمائیں اور جب آپ سے ثبوت مانگا جائے تو آپ آزادی رائے کا رونا روتے جائیں ۔
 اس قانون کو ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، چیلنج کرنے والوں نے اپنی درخواست میں  وزیر اعلیٰ اور گورنر پنجاب بذریعہ پرنسپل سیکرٹری ، پنجاب حکومت کو فریق بنایا ہے درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہتک عزت قانون آئین اور قانون کے منافی ہے، ہتک عزت آرڈینیس اور ہتک عزت ایکٹ کی موجودگی میں نیا قانون نہیں بن سکتا،دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہتک عزت قانون میں صحافیوں سے مشاورت نہیں کی گئی، ہتک عزت کا قانون جلد بازی میں صحافیوں اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے لایا گیا ہے،درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ہتک عزت کے قانون کو کالعدم قرار دے اور درخواست کے حتمی فیصلے تک ہتک عزت قانون پر عملدرآمد روکا جائے۔

دلچسپ ہے نا کہ قانون ساز ادارے سے یہ کہا جائے کہ وہ کوئی قانون نہیں بناسکتا اور اگر یہ ادارہ کوئی قانون نہیں بناسکتا تو کیا کرسکتا ہے یہ بھی پٹیشنر سے پوچھا جانا چاہیے لیکن معاملہ عدالتی ہے ہم اس پر تبصرہ نہیں کرسکتے ، پٹیشنر کے مطابق ہتک عزت آرڈینینس اور ایکٹ کے ہوتے ہوئے قانون نہیں بن سکتا ،اب کوئی کیا بتائے کہ نیا قانون پرانے آرڈینینس اور ایکٹ کو ختم کر کے ہی بنایا جاتا ہے ، آگے چل کر موصوف کہتے ہیں کہ صحافیوں سے مشاورت نہیں کی گئی، اچھا یہ کس آئین میں لکھا ہے کہ کوئی بھی قانون بنانے سے پہلے صحافیوں سے پوچھا جائے گا اس کی کوئی وضاحت یا حوالہ نہیں اور پھر پٹیشنر کا خیال ہے کہ قانون جلد بازی میں لایا گیا ہے یعنی چند سال تک مزید نا لایا جاتا تو انہیں کوئی اعتراض نا ہوتا ۔
ایک صحافی ہونے کے ناطے میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ قانون کسی کے خلاف نہیں صرف جھوٹ ، بہتان ، الزام تراشی اور تضحیک کے خلاف لایا گیا ہے، سچے صحافیوں کو اس بل سے نقصان نہیں فائدہ ہوگا، اداروں کے دباؤ یا ڈالرز کی چمک کے لیے کوئی صحافی اب جھوٹ کا سہارا نہیں لے گا جو سچ ہوگا وہ عوام کے سامنے لائے گا، ایسا سچ جسے جاننا ہر شہری کا بنیادی حق ہے ۔
لیکن اب مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ہمیں گند اچھالنے ، جھوٹ بولنے ،الزام تراشی، بہتان بازی کی اجازت دی جائے۔

 ضروری نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر