ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور ہائیکورٹ؛ دو ڈی آئی جی لٹن روڈ  پولیس مقابلہ کی وضاحت دینے میں ناکام، آئی جی کی طلبی

لاہور ، پنجاب ، سٹی42 Liton Road Police Encounter, Lahore High Court, City42, IG Police Doctor Usman Anwar,
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ملک اشرف : لاہور میں لٹن روڈ کے علاقہ میں  مبینہ پولیس مقابلہ میں دو افراد کی   ہلاکت کا معاملہ  لاہور ہائیکورٹ میں پہنچ گیا۔ 

 مبینہ پولیس مقابلے کے متعلق کیس کی سماعت  منگل کے روز لاہور ہائی کورٹ میں ہوئی تو  ڈی آئی جی آپریشنز محمد فیصل کامران  ،ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر   جسٹس علی ضیا باجوہ کی عدالت میں  پیش ہوئے۔

دونوں ڈی آئی جی اس پولیس انکاؤنٹر کے متعلق عدالت میں تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ عدالت نے  آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور کو  اس کیس میں وضاحت کرنے کے لئے کل طلب کرلیا ۔

عدالت نے سیکرٹری سپیشلائزڈ  ہیلتھ  کو بھی  کل پیش ہونے کا حکم دے دیا ۔

  

جسٹس علی ضیاء باجوہ  نےفرزانہ بی بی  کی درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت  کی ،دونوں ڈی آئی جیز ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل حافظ اصغر کے ہمراہ پیش ہوئے ، پنجاب حکومت کی جانب سے اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل شاہد نواب چیمہ پیش ہوئے ،،ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر بابر بار عدالت سے غیر مشروط معافیاں مانگتے رہے جبکہ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران مسلسل خاموش کھڑے فاضل جج کی طرف دیکھتے رہے،،دونوں ڈی آئی جیز مبینہ پولیس مقابلے کیس میں تین گھنٹے تک عدالت میں موجود رہے  جب سماعت کا آغاز ہوا تو عدالت نے پوسٹمارٹم کرنے ڈاکٹرز کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر اختر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا جب آپ کے پاس کوئی کیس آتا ہے ، آپ نے ہر صفحے پر دستخط بھی کرنا ہوتے ہیں ، کسی صفحے پر  دستخط نہیں ہیں ،  پوسٹمارٹم کیسے کردیا ، یہ رکھیں رپورٹ ڈی آئی جی کے سامنے، جو ڈاکٹر نے تیار کی ہے،ڈاکٹر اختر تسلی بخش جواب نہ دے سکا تو ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر نے کہاتفتیشی  نے گزشتہ روز  مس سٹیٹمنٹ دی  تھی عدالت میں ،،، 
میں غیر مشروط معافی مانگتا ہوں ،  جسٹس علی باجوہ نے ڈی آئی جی ذیشان اصغر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اگر ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ایک بوگس رپورٹ  پر غلط جواب دے ،تو اسے نتائج کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا، کس بات کی معافی ، دو بندوں کی لاشیں سڑک پر پڑی ہیں ،پولیس نے تو حفاظت کے لئے فائرنگ کرنے کا کہا تھا دو بندے مار کر پھنک دئیے اور پھر کہیں کہ کوئی ریکارڈ  بھی چیک نہ کرے ، بتائیں گزشتہ روز آپ نے جعلی رپورٹ عدالت پیش کردی ، دو لاشیں سڑک پر پڑی ہیں ،حفاظت خود اختیاری کے پولیس نے جو فائرنگ کی اس کی گولیوں کے خول کدھر ہیں ، آپ کو تو ایک ایک گولی کا حساب دینا پڑتا ہے، عدالت کے سوالات کے جوابات کے دوارن  ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران مسلسل  خاموش کھڑے  فاضل جج کی طرف دیکھتے رہے، ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر دوبارہ بولے اور کہا
میں معافی مانگتا ہوں ،فاضل عدالت نے ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر سے کہا  آپ کس چیز کی معافی مانگ رہے ہیں ، اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت سے استدعا کی کہ ریکارڈ کے مطابق ڈی آئی جی انکوائری کرلیتے ہیں ، جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس دئیے یہ انکوائری تھوڑی  ہی کریں گے، جنہوں نے ایک بوگیس رپورٹ عدالت میں پیش کی ، ڈی آئی جی ذیشان اصغر نے ایک مرتبہ پھر کہا میں  معافی مانگتا ہوں ، فاضل جج نے  استفسار کیا یہ جعلی ریکارڈ کس کے کہنے پر پیش کیا گیا ، ڈی آئی جی ذیشان اصغر نے جواب دیا میں انکوائری کرلیتا ہوں ،  فاضل جج نے ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر  سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ  تھوڑا ہی اس کی انکوائری کریں گے ، ڈاکٹرز کے خلاف بھی دو سو ایک کا مقدمہ ہونا چائیے کہ انہوں نے ریکارڈ میں رد بدل کی کوشش کی ، پولیس  قتل کردے اور لوگ لاہور ہائیکورٹ بھی نہ آئیں اسٹنٹ ایڈوکیٹ جنرل شاہد نواب چیمہ نے عدالت سے استدعا کی کہ  پولیس افسران کو ایک موقع اور دے دیں ، جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس دئیے دو ڈی آئی جیز جعلی رپورٹ پیش کرکے چلے جاتے ہیں اور اگلے دن کہتے ہیں کہ تفتیشی کے جعلی بیان دیا،۔ اگر مبینہ پولیس مقابلے کی ایف آئی آرز ہوگئی تھی تو پوسٹمارٹم بروقت کیوں نہ کروایا گیا،  ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران مسلسل خاموش رہے ، فاضل جج نے درخواست گزار وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اگر یہ مبینہ پولیس مقابلہ کا کیس ہے تو آپ کو ایف آئی اے کو درخواست دینی چائیے تھی ، دونوں ڈی آئی جیز تین گھنٹے تک عدالت میں موجود رہے،عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی

Ansa Awais

Content Writer