ترقی پسند عظیم شاعراورنغمہ نگار قتیل شفائی کی آج  بیسویں برسی۔۔۔

ترقی پسند عظیم شاعراورنغمہ نگار قتیل شفائی کی آج  بیسویں برسی۔۔۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(سٹی42) ترقی پسند عظیم شاعراورنغمہ نگار قتیل شفائی کی آج  بیسویں برسی  منائی جارہی ہے۔ قتیل شفائی کا اصل نام اورنگزیب خان تھا، 24 دسمبر، 1919ء کو ہری پور ہزارہ میں پیدا ہوئے کم عمری میں ہی یتیمی کا داغ سہنا پڑا اور زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کےلئے کھیلوں کے سامان کی دکان بنائی۔ جب کاروبار  نہ چلا تو راولپنڈی میں ٹرانسپورٹ کمپنی میں 60 روپے ماہانہ پرنوکری شروع کی ۔ انہوں نے 1938ء میں اپنا قلمی نام قتیل شفائی رکھا۔ قتیل ان کا تخلص تھا جبکہ شفائی انہوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شفائی کے حوالے سے رکھاجن سے وہ اصلاح لیتے تھے۔1946ء میں انہیں نذیر احمد نے اپنے ادبی جریدے ’’ادب لطیف‘‘ میں معاون مدیر کی حیثیت سے کام کرنے کیلئے لاہور بلوالیا۔ جنوری 1947ء میں قتیل صاحب کو پاکستان کی پہلی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے گیت لکھنے کیلئے کہا گیا۔ انہیں یہ پیشکش فلم کے پروڈیوسر دیوان سرداری لال نے کی تھی۔ 1948ء میں انہوں نے ’’تیری یاد‘‘ کے گیت لکھے اور اسی سال یہ فلم ریلیز ہوئی۔ 1948ء سے 1955ء تک انہوں نے جو فلمی گیت لکھے اس کی بنا پر وہ پاکستان کے کامیاب ترین نغمہ نگار بن گئے۔


قتیل شفائی کی ابتک 20 تصانیف شائع ہو چکی ہیں  ’ہریالی‘ ، ’گجر‘ ، ’جلترنگ‘ ، ’روزن‘ ، ’جھو مر‘ ، ’مطربہ‘ ، ’چھتنار‘ ، ’گفتگو‘ ، ’پیراہن‘ ، ’آموختہ‘ ، ’ابابیل‘ ، ’برگد‘ ، ۔ ’گھنگھرو‘ ، ’سمندر میں سیڑھی‘ ، ’پھوار‘ ، ’صنم‘ ، ’پرچم‘ ، ’انتخاب‘ ( منتخب مجموعہ) اور ’گھنگرو ٹوٹ گئے‘ ( آپ بیتی) ۔ ان کے کلام کے ہندی، گجراتی، چینی اور روسی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ انہوں نے ڈھائی ہزار سے زائد فلمی گیت لکھے۔ انہوں نے 201پاکستانی اور بھارتی فلموں کیلئے نغمات لکھے۔۔1994ء میں انہیں تمغۂ حسن کارکردگی دیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں آدم جی ایوارڈ‘ نقوش ایوارڈ اور اباسین آرٹس کونسل ایوارڈ بھی ملا۔ پھر انہیں بھارت میں امیرخسرو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1999ء میں انہیں خصوصی ملینیئم نگار ایوارڈ دیا گیا۔۔ قتیل ؔ شفائی کو بہترین گیت نگار کے 4 مرتبہ نگار ایوارڈ حاصل ہوئے :
پہلا: فلم ”انارکلی“ ( 1958 ) ، دوسر ا فلم ”نائلہ“ ( 1965 ) ، تیسرا فلم ”آ گ ’‘ ( 1979 ) اور چوتھا فلم“ سر کٹا انسان ”( 1994 )
قتیل شفائی نے خود بھی فلمیں بنائیں۔ ان میں پشتو میں فلم ’’عجب خاں آفریدی‘‘ اور ہندکو کی پہلی فلم’’ قصہ خوانی‘‘ شامل ہیں۔ اردو میں ’’اک لڑکی میرے گاؤں کی‘‘ شروع کی لیکن مکمل نہ ہو سکی۔  11 جولائی 2001 میں  یہ شاعر بے مثال لاکھوں چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گیا۔ لاہور میں علامہ اقبال ٹاؤن کے کریم بلاک کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے


 قتیل شفائی کا نعتیہ کلام بھی اپنی مثال آپ ہے۔
کتنا بڑا حضور کے قدموں کا فیض تھا
یثرب کی سر زمیں پہ مدینہ بسا دیا

قتیل شفائی کے کچھہ اشعار

دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم  تو سہتا  ہے  بغاوت  نہیں کرتا

کرنا ہے جو سر معرکۂ زیست تو سن لے
بے بازوئے حیدر در خیبر نہیں گرتا
قائم ہے قتیلؔ اب یہ مرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا

مجھ سے رکھتے ہیں قتیل اس لئے کچھ لوگ حسد
کیوں میرے شعر ہیں مقبول حسیناﺅں میں

جن کو پینے کا سلیقہ ہے وہ پیاسے ہیں قتیل
جتنے کم ظرف تھے اس دور میں مے خوار ہوئے

جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھہ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں

چلو اچھا ہوا کام آگئی دیوانگی اپنی
وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

ہمیں تو آج کی شب پو پھٹے تک جاگنا ہوگا
یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سوجائو

ایک ذرا سا دل ہے جس کو توڑ کے بھی تم جا سکتے ہو
یہ سونے کا طوق نہیں،یہ چاندی کی دیوار نہیں

جب بھی چاہیں اک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ
ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھہ پہ گرے اورزخم آئے مجھے

اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھہ دیا

احباب کو دے رہا ہوں دھوکا
چہرے پہ خوشی سجا رہا ہوں

مر گئے ہم تو یہ کتبے پہ لکھا جائے گا
سو گئے آپ زمانے کو جگانے والے

دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا

تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں