احمد سلیم انتقال کر گئے

احمد سلیم انتقال کر گئے
کیپشن: File photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: برصغیر پاک و ہند کے ممتاز دانشور،   پنجابی اور  اُردو   زبانوں کے صاحبِ طرز ادیب، شاعر، محقق، ترجمہ نگار، بائیں بازو کے سیاسی کارکن اور  انسانی حقوق کے سرگرم کارکن احمد سلیم 78 برس کی عمر میں  انتقال کر گئے۔

  احمد سلیم  اسلام آباد میں کچھ عرصے سے جگرکےعارضے میں مبتلا تھے، ان کی نماز جناہ آج بعد لاہور میں ادا کی جائے گی۔

   احمد سلیم کی برصغیر پاک و ہند  کی سیاسی تاریخ، اب اور ثقافت پر گہری نظر تھی، ن احمد سلیم نے درجنوں کتابیں لکھیں اور  بہت سے ترجمے کئے۔ پاکستانی اخبارات سے ملکی تاریخ کے اہم واقعات چار جلدوں میں اکٹھے کیے۔

  احمد سلیم کی وفات کی خبر نے پاکستان کے ادب شناس حلقوں مین گہرے دکھ اور افسوس کی لہر دوڑا دی ہے۔

نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بھی احمد سلیم کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کی۔

احمد سلیم کی بتدائی زندگی
احمد سلیم خواجہ ضلع گجرات، پنجاب، پاکستان کے گاؤں میانہ گوندل میں پیدا ہوئے، احمدسلیم سات بھائیوں اور بہنوں میں چوتھے نمبر پر تھے۔ان کی ابتدائی تعلیم میانہ گوندل میں ہوئی، میٹرک  پشاور سے  کیا۔  پشاور میں تعلیم کے دوران احمد سلیم ادب، شاعری، ادیبوں اور شاعروں سے متعارف ہوئے ۔پشاور سے میٹرک کرنے کے بعد سلیم انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے لیے کراچی چلے گئے۔ اردو کالج میں داخلہ لے لیا۔ اسی زمانے میں احمد سلیم نے ایک ادبی میگزین افکار کے زیر اہتمام ایک مقابلے میں حصہ لیا۔ شرکاء سے فیض احمد فیض کی شاعری پر اپنے خیالات لکھنے کو کہا گیا۔ مقابلے میں احمد سلیم کی فیض پر نظم کو پہلا انعام ملا۔ اس وقت فیض عبداللہ ہارون کالج کے پرنسپل تھے۔ فیض کی دعوت پر احمد سلیم نے عبداللہ ہارون کالج میں داخلہ لیا۔ فیض اور احمد سلیم کے درمیان قربت پیدا ہوئی جو  1984 میں فیض صاحب کی وفات تک قائم رہی۔

کیریئر
ہائی اسکول (انٹرمیڈیٹ) مکمل کرنے کے بعد احمد سلیم نے 1968 میں نیشنل بینک میں شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں ان کا تبادلہ راولپنڈی کردیا گیا جہاں وہ 1969 تک اس بینک میں کام کرتے رہے۔ احمد سلیم پھر لاہور چلے گئے اور شاہ حسین کالج میں پڑھانے لگے۔ 1969-71 کے دوران وہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) سے وابستہ رہے، اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن پر تنقید کرنے پر 1971 میں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔

1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے فیض کو نیشنل کونسل آف آرٹس کا چیئرمین مقرر کیا۔ فیض کی دعوت پر احمد سلیم نے کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ 1972 سے 1975 تک نیشنل کونسل آف آرٹس کے ساتھ اپنی وابستگی کے دوران، احمد سلیم نے فوک لور ریسرچ سینٹر چلایا اور اس ریسرچ سنٹر سے  پنجابی اور سندھی لوک داستانوں پر مواد شائع کیا۔ 1974 میں فیض کے اس ادارے کو چھوڑنے کے فوراً بعد احمد سلیم نے بھی نیشنل کونسل آف آرٹس چھوڑ دی۔

1976-77 کے دوران احمد سلیم نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں پڑھایا۔ انہوں نے پاکستانی زبانوں پر ایک کورس پڑھایا - کورس کا مواد ان کے ذریعہ ہی تیار کیا گیا تھا۔ اس وقت سندھی زبان کے سب سے بڑے شاعر  شیخ ایاز سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ احمد سلیم  شیخ ایاز کے کام سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے ایاز کی شاعری کا پنجابی میں ترجمہ کیا، ان کی ایاز کی نظموں کے منظوم ترجمہ کی کتاب "جو بیجل نے آکھیا" سنھی اور پنجابی دان عوام میں یکساں مقبول ہوئی۔ سندھ یونیورسٹی میں احمد سلیم کا پرنسپل کام شاہ حسین کی شاعری کا سندھی میں ترجمہ کرنا تھا اور بھٹائی کے کام کا پنجابی میں ترجمہ کرنا تھا، حالانکہ وہ بعد میں مکمل نہیں کر سکے۔ سندھ یونیورسٹی میں قیام کے دوران احمد سلیم نے بیچلر آف آرٹس کی ڈگری بھی مکمل کی۔

بھٹو کے مارشل لاء کے بعد، احمد سلیم 1977 کے اواخر میں کراچی چلے گئے۔ وہاں انہوں نے روزنامہ امن (ایڈیٹر: افضل صدیقی) کے لیے ٹی وی پروگراموں کے جائزے لکھے۔ اضافی آمدنی کے لیے احمد سلیم نے ترجمے کا بہت کام بھی کیا، اور احمد سلیم مترجم کے نام سے مشہور ہوئے۔ 1979 میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی میں ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا، گولڈ میڈل کے ساتھ ایم اے مکمل کیا۔ اسی وقت احمد سلیم کی شادی ہو گئی۔ 1981 سے شروع کرتے ہوئے انہوں نے ایک لیبر میگزین جفاکش کی تدوین کی۔ 1985-88 کے دوران احمد سلیم نے کراچی یونیورسٹی میں پاکستانی زبانوں کا ایک کورس پڑھایا – وہی کورس جو انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں پڑھایا تھا۔ 1988 میں احمد سلیم لاہور چلے گئے۔

جب 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیں تو جنگ گروپ نے احمد سلیم سے اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق پاکستان کی تاریخ پر ایک کتاب لکھنے کو کہا۔ احمد سلیم نے تحقیقی مواد کی کمی اور سرکاری اداروں سے معلومات حاصل کرنے میں دشواری کا بہت جلد علم کر لیا۔ اس کام کے دوران انہوں نے تاریخی اہمیت کے مواد کو جمع اور محفوظ کرنا شروع کیا۔ اس طرح آرکائیونگ میں ان کا کیریئر بن گیا۔

1996-جون 2007، احمد سلیم نے اردو پبلیکیشنز  فار سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ، ایک این جی او ک ایس ڈی پی آئی کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کیا۔

پرائڈ اآف پرفارمنس 

 2010 میں احمد سلیم کو ادب کے میدان میں ان کی خدمات کے اعتراف میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا۔

ساؤتھ ایشین ریسرچ اینڈ ریسورس سینٹر
2001 میں، احمد سلیم اور ان کے مسیحی دوستوں، لیونارڈ  ڈیسوزا اور نوشین ڈیسوزانے ساؤتھ ایشین ریسرچ اینڈ ریسورس سینٹر (SARRC) قائم کیا۔ SARRC ایک نجی، غیر منافع بخش آرکائیو ہے، جو مذہبی اقلیتوں اور مقامی لوگوں کے حقوق پر خصوصی زور کے ساتھ ترقی اور امن پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس نے پاکستانی غیر منافع بخش شعبے میں وسائل اور دستاویزات کی خدمات کو آگے بڑھایا ہے۔