انحراف نہیں عدلیہ ، فوج کی تضحیک زیادہ سنگین جرم ہے ، سپریم کورٹ

supreme court of pakistan
کیپشن: supreme court of pakistan
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ویب ڈیسک : سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ و فوج کی تضحیک اور نظریہ پاکستان کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے۔

 رپورٹ کے مطابق  دوران سماعت جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ آرٹیکل 63 (1) جی پڑھ لیں۔ آپ کہتے ہیں منحرف ارکان کو تاحیات نااہل کریں۔ بابر اعوان نے جواباً کہا کہ انحراف کرنا بڑا سنگین جرم ہے۔ اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ میری نظر میں آرٹیکل 63(1)جی کی خلاف ورزی زیادہ سنگین جرم ہے۔ آرٹیکل 63(1)جی عدلیہ فوج کی تضحیک اور آئیڈیا لوجی آف پاکستان سے متعلق ہے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منیب، جسٹس جمال خان مندوخیل بھی لارجر بنچ کا حصہ ہیں۔تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوٹیلیٹی بلز ادا نہ کرنے والا بھی رکنیت کا اہل نہیں ہوتا۔ مدت کا تعین نہ ہو تو نااہلی تاحیات ہو گی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کوئی امیدوار آئندہ الیکشن سے پہلے بل ادا کردے تو کیا تب بھی نا اہل ہو گا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بل ادا کرنے کے بعد نااہلی ختم ہو جائے گی۔

آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت ہی نااہلی تاحیات ہے۔ جب تک نا اہلی کا ڈکلیریشن عدالت ختم نہ کرے نااہلی برقرار رہے گی۔ یوٹیلیٹی بلز کی عدم ادائیگی پر نااہلی تاحیات نہیں ہوسکتی۔تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر کوئی ڈی سیٹ ہو اور 15 دن بعد دوبارہ پارلیمنٹ آجائے۔ ہوسکتا ہے دوبارہ منتخب ہوکر کوئی وزیر بھی بن جائے۔ ایسا ہو جانا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ مذاق ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ قانونی اصلاحات کریں۔ توبہ کا دروازہ تو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہا کہ ہم نے آپ کا نکتہ نوٹ کر لیا ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں نااہلی کی معیاد نہ ہونے پر تاحیات نا اہلی ہو گی۔اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا آرٹیکل 63 اے کا آرٹیکل 62 ون ایف کے ساتھ تعلق کیسے بنتا ہے؟ بابر اعوان نے جواب دیا کہ میری دلیل ہے کہ آرٹیکل 63 اے بذات خود منحرف رکن کو تاحیات ناہل کرتا ہے۔ کیا اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ 26 ارکان پارٹی چھوڑ جائیں۔ اس طرح تو اکثریتی جماعت اقلیت میں آ جائے گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں آرٹیکل 63 اے کو اتنا سخت بنایا جائے کہ کوئی انحراف نہ کر سکے؟ بابر اعوان نے جواب دیا کہ عوام کے پاس ووٹ کی طاقت کے علاوہ بولنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔18 ویں ترمیم میں کینسر کا علاج کرنے کے لیے ایک سرجیکل اسٹرائیک 63 اے میں بنائی گئی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قانون میں جرم کی مختلف سزائیں دی گئی ہیں۔ کیا عدالت سزا میں ایک دن کا بھی اضافہ کرسکتی ہے؟

بابر اعوان کی جانب سے مشرف مارشل لا توثیق کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے مشرف کو آئینی ترمیم کا اختیار دیا تھا۔عدالت کے اختیارات لامحدود ہیں۔ بابر اعوان نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ آخری امید ہے اس کے بعد سڑکیں اور جلسے ہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ایک کہتا ہے آزاد عدلیہ چاہیے دوسرا کہتا ہے آئین کے تابع عدلیہ چاہیے۔ آئین کے تابع پارلیمان، ایگزیکٹو اور عدلیہ ہونی چاہیے۔

بابر اعوان نے جواب دیا کہ عدلیہ ہی سب کو آئین کے تابع کرسکتی ہے۔ عدلیہ صرف آئین کی تشریح نہیں کرتی بلکہ اپنے فیصلوں سے قانون وضع کرتی ہے۔ آپ کہتے ہیں لوگ سپریم کورٹ کی طرف دیکھتے ہیں۔ عوام انصاف ہوتا بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کہہ کر تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔

ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے دلائل کا آغاز کیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سیاسی جماعت جوائن کرتے وقت یہ حلف لیا جاتا ہے کہ پارٹی سربراہ کی ہر ایک بات پر عمل کیا جائے گا؟ یہ تعین کس نے کرنا ہے کہ کس شخص کا کیسا کردار ہے؟وکیل اظہر صدیق نے جواب دیا کہ آئین نے پارٹی سربراہ کو اختیار دیا ہے کہ اپنے اراکین کے کردار کا تعین کرسکے۔ برطانیہ میں ایک پاونڈ کی کرپشن پر استعفیٰ دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عدالتیں جس کو صادق و امین نا ہونے پر نا اہل قرار دے چکیں وہ فیصلے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈلواتے وقت قرآن پر حلف لیے گئے تھے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ روایت بن گئی ہے کہ پیسوں سے حکومت گرائی جاتی ہے۔ چند لوگوں کی خریدو فروخت سے 22 کروڑ عوام کا مستقبل داؤ پر ہوتا ہے۔

 یادرہے  کہ کیس میں اب تک سابق اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور سیاسی جماعتوں کے وکلا کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں۔جبکہ نئے تعینات ہونے والے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف موجودہ حکومتی موقف عدالت کو بتائیں گے۔ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان ملک سے باہر ہیں ان کے دلائل بھی ابھی باقی ہیں۔ہ صدر مملکت نے منحرف اراکین سے متعلق آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔سپریم کورٹ تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر آرٹیکل 63 اے پر رائے دے گی۔

عدالت نے وکیل اظہر صدیق کو کل 15 منٹ میں دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کر دی ۔