ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

افغانستان زلزلہ؛ 20 دیہات صفحہِ ہستی سے غائب، 3ہزارلاشیں، امداد کی قلت

Afghanistan Earthquake, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: ہفتے کے روز مغربی افغانستان میں آنے والے طاقتور زلزلوں سے کم از کم بیس دیہات صفحہِ ہستی سے غائب ہو گئے۔  زندہ بچ جانے والوں نے دوسری رات بھی منہدم ہونے والے دیہات کے ملبے کے درمیان کھلے آسمان تلے گزاری، دن بھر وہ لوگ بیلچوں کی مدد سے منہدم مکانات کا ملبہ ہٹا کر  اپنے پیاروں کو تلاش کرتے رہے۔

صوبہ ہرات کے دارالحکومت ہرات شہر میں لوگ مزید جھٹکوں کے خوف سے اتوار کی رات  پارکوں اور گلیوں میں سو ئے۔  ان علاقوں میں امدادی سرگرمیاں اب تک انتہائی قلیل ہیں۔ 

زلزلہ میں مرنے والوں کی تعداد

 سینئر طالبان حکام کے غیر رسمی بیانات کے مطابق ہفتہ کے زلزلہ سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 3,000 کے قریب پہنچ رہی ہے۔

طالبان کے ایک اہلکار نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ اس علاقے میں مزید جانی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ "ہماری ٹیمیں اس وقت ان متاثرہ علاقوں کو مدد فراہم کرنے کے لیے راستے میں ہیں۔"

امدادی کارکنوں نے بتایا کہ اتوار کو دیر گئے انہیں مزید 350 لاشیں ملی ہیں۔ حکام نے اس سےپہلے مرنے والوں کی تعداد 2,445 بتائی تھی۔ شعبہِ صحت کے کارکنوں نے کہا کہ وہ  امدادی کام کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔ ہرات کے اسپتال کے ایک طبیب نے کہا، "ہر منٹ میں لاشوں سے بھری وینیں یہاں پہنچ رہی ہیں۔" "ہم زخمی لوگوں کی بہت زیادہ تعداد کے ساتھ  سب کو بچانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ میں نے لاشیں نہیں گنیں۔ ہمارا مردہ خانہ گنجائش سے باہر ہے۔"

طالبان کی پولیس نے پہلے بتایا تھا کہ افغانستان میں ہفتے کے روز آنے والے شدید زلزلوں سے مرنے والوں کی تعداد 2500 سے زیادہ ہو گئی ہے۔

 زلزلہ میں ہونے والے جانی نقصان کے حوالے سے افغانستان کی طالبان حکومت کی قدرتی آفات کی وزارت کے ترجمان جانان صائق نے رائٹرز کو ایک پیغام میں کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد 2,445 ہو گئی ہے لیکن انہوں نے زخمیوں کی تعداد کو کم کر کے "2,000 سے زیادہ" کر دیا۔ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ 9,240 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ سعید نے یہ بھی کہا کہ 1,320 مکانات زلزلہ سے تباہ ہوئے یا ان کو شدید نقصان پہنچا۔ صائق نے بتایا کہ امدادی کام کرنے کے لئے دس ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں مصروف ہیں۔

پاکستان کی جانب سے ہنگامی امداد

پاکستان کی نگراں وفاقی حکومت نے پیر کو کہا کہ وہ شمال مغربی افغانستان میں ہفتے کے روز آنے والے شدید زلزلے کے متاثرین کے لیے امدادی سامان کی پہلی کھیپ روانہ کر رہے ہیں۔

نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اسلام آباد عبوری افغان حکومت کی  درخواست پر فوری طور پر ایک طبی ٹیم، فیلڈ ہسپتال، 50 خیمے اور 500 کمبل زلزلے سے متاثرہ علاقے میں بھیج رہا ہے۔


وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے سماجی پلیٹ فارم X پر ایک پوسٹ میں کہا، "میری ہدایات پر  تمام درخواست کردہ اشیاء کو مزید امدادی سامان کے ساتھ آج پیر کے روز  دوپہر کو روانہ کیا جا رہا ہے، 

انہوں نے مزید کہا کہ "ہرات، افغانستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے گہرا دکھ ہوا ہے۔ ہمارے دل متاثرہ کمیونٹیز کے لیے رنجیدہ ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد "اس مشکل وقت میں افغانوں کے ساتھ کھڑا ہے۔"

کاکڑ نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی ڈیزاسٹر اتھارٹی کو متاثرہ لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد بھیجنے کی ہدایت کی۔

امداد سے محروم زلزلہ زدگان کے خراب حالات

 ہرات کے ایک رہائشی شکیب نے کہا۔ "میرا دو سالہ بیٹا بیمار ہے اور اسے طبی دیکھ بھال کے لیے لے جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔یہ پچھلے کچھ دن ناقابل یقین حد تک پریشان کن رہے ہیں۔ ہم نے پچھلی دو راتیں صحرا میں گزاری ہیں کیونکہ زلزلہ کے بعد مزید آفٹر شاکس آتے رہے ہیں،"

حکومت دو دن بعد پہنچی

ایک طالبان عہدیدار نے کہا کہ زلزلے کے بعد پہلی بار پیر کو کچھ دیہات تک رسائی حاصل کی جا رہی ہے۔

"ریسکیو آپریشن ابھی بھی جاری ہے۔ وزارت دفاع کے دستے آج صبح علاقے میں پہنچے اور مقامی باشندے اس آپریشن میں سرگرمی سے مدد کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ان علاقوں تک ہم ابھی تک نہیں پہنچے ہیں،‘‘ انہوں نے کہا۔ "کم از کم 20 دیہات مکمل طور پرتباہ ہو گئےہیں اور لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔"

افغانستان اکثر زلزلوں کی زد میں رہتا ہے، خاص طور پر کوہ ہندو کش کے پہاڑی سلسلے میں، لیکن طالبان – جنہوں نے دو سال قبل طاقت کے ذریعے ملک پر قبضہ کر لیا تھا – قدرتی آفات سے نمٹنے کا تجربہ نہیں رکھتے۔

سوشل میڈیا اور سرکاری ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ طالبان کی امدادی ٹیموں کے ارکان ملبے کے ڈھیر سے اینٹیں نکال رہے ہیں جن کے کندھوں پر بندوقیں لٹکی ہوئی ہیں اور تباہ شدہ دیہاتوں میں بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے، ممکنہ طور پر کسی بھی زندہ بچ جانے والوں کی جان کو خطرہ ہے۔

"میں نے اپنے کچھ پڑوسیوں کے ساتھ ایک شدید متاثرہ گاؤں کا دورہ کیا تاکہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کی جا سکے۔ طالبان کی امدادی ٹیمیں ملبے کو ہٹانے اور زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کرنے کے لیے بلڈوزر استعمال کر رہی تھیں، لیکن ان کے اقدامات نے غیر ارادی طور پر ممکنہ زندہ بچ جانے والوں کو خطرے میں ڈال دیا،" ہرات کے ایک رہائشی فریڈون نے ایک ٹیلی فون انٹرویو میں کہا۔

بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی نے خبردار کیا کہ امدادی سامان کی کمی سے مغربی افغانستان میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ پھنسے بچ جانے والوں کو نکالا نہیں جا سکتا۔

اقوام متحدہ کی مائیگریشن ایجنسی نے علاقائی ہسپتال میں ڈاکٹروں اور نفسیاتی معاون مشیروں کے ساتھ چار ایمبولینسیں روانہ کیں۔ کم از کم تین موبائل ہیلتھ ٹیمیں زندا جان ضلع کی طرف جا رہی تھیں، جو کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق شمال مغربی ہرات اور بادغیس صوبوں میں 6.3، 5.9 اور 5.5 شدت کے زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے۔ اس نے کہا کہ زلزلے کا مرکز ہرات شہر سے 40 کلومیٹر (24.8 میل) شمال مغرب میں تھا۔

افغانستان کو اکثر جھٹکے محسوس ہوتے ہیں، خاص طور پر ہندوکش پہاڑی سلسلہ، جو یوریشین اور ہندوستانی ٹیکٹونک پلیٹوں کے سنگم کے قریب واقع ہے۔

مشرقی صوبہ پکتیکا میں گزشتہ سال جون میں 5.9 شدت کے زلزلے میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک اور دسیوں ہزار بے گھر ہو گئے تھے۔