کل میری افس سے چھٹی تھی تو میں کافی دنوں بعد خان بابا کے ہوٹل پر چائے پینے گیا کیونکے جب سے گرمیاں شروع ہوئی ہیں تب سے ہمارا ٹھکانہ حافظ جوس کارنر تھا۔ خان بابا مجھے دیکھتے ہی دوڑ کر میرے پاس آئے اور پرجوش انداز میں گلے ملے اور ساتھ ہی گلے شکوے شروع کردیئے کہ میاں صاحب نا تو آپ فون اٹھاتے ہیں اور نہ ہی ہوٹل کا چکر لگاتے ہیں خیریت تو ہے نا ۔ خان بابا نے باتوں ہی باتوں میں دکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ میرے ہوٹل کا بل ڈھائی لاکھ روپے آیا تھا۔ ادا نہ کرنے پر واپڈا والوں نے بجلی کاٹ دی ہے۔ پتہ نہیں یہ حکومت کیا چاہتی ہے بجلی اتنی مہنگی کردی ہے کہ نہ تو کوئی سیاسی لیڈر اس کے خلاف آواز بلند کرتا ہے اور نہ ہی عوام احتجاج کے لیے باہر نکلتی ہے ۔ پتہ نہیں اس ملک کا کیا بنے گا ۔
میں نے خان بابا کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ ہمیں گرما گرما اچھی سی چائے پلا دیں پھر آپ سے گپ شپ لگاتے ہیں۔ خان بابا چائے بنانے کے لیے کھڑے ہوئے اور بولے کہ میاں صاحب حکومت نے ایک اور عجیب وغریب ڈرامے بازی شروع کی ہوئی ہے 200 یونٹ والوں کو 3 ہزار روپے بل اور 201 والوں کو 8 ہزار روپے بجلی کا بل بھیج دیتے ہیں ۔ ایسی پالیساں بناتا کون ہے ۔ آپ بتائیں آپ چار دوست ہیں اگر میں آپ کو چائے کا پہلا کپ 80 روپے ، دوسرا 100 اور تیسرا 150 اور چوتھا 200 روپے کا دوں تو کیا آپ خاموشی سے قیمت ادا کریں گے یا میری عقل ٹھکانے پر لگائیں گے ۔ ایسی مذاق والی پالیسی بنانے والے فری بجلی ، فری پیٹرول اور دیگر مراعات کا مزہ لے رہیں اور جبکہ جن کے ساتھ یہ مذاق ہوتا ہے وہ فاقہ کشی اور خود کشی پر مجبور ہیں۔
خان بابا کی باتیں سن کر چند لمہوں کے لیے میں بھی خاموش ہوگیا اور سوچنے لگا کہ الیکشن سے پہلے حکومتی اتحاد کے 300 یونٹ فری دینے کے بلند وبانگ دعوے کرنے والے اب عوام کا خون چوسنے لگے ہیں ۔ عوام بجلی کا بجلی ادا کرنے کے لیے اپنی قیمتی چیزیں بیچ رہے ہیں۔ کیا عوام کی چیخیں اشرافیہ کے کانوں تک نہیں پہنچ رہیں، یہ ملک اتنا غریب نہیں تھا جتنا اسے بنا دیا گیاہے۔
ظلم کی انتہا دیکھیں ایک طرف حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ملکر بجلی مہنگی کررہی ہے اور بجلی کے بل میں 15 مختلف ٹیکسز شامل کردیئے ہیں جس کے بعد گھریلوں صارفین کا فی یونٹ ٹیرف 70 روپے تک ہوگیا ہے جبکہ دوسری طرف عوام کو لولی باپ دینے کے لیے 200 یونٹ والوں کو فری سولر سسٹم دینے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ تاکہ عوام خاموش رہے اور خاموشی سے ظلم سہتے رہیں۔
اگر ہم اپنے ہمسایہ ممالک انڈیا ، بنگلہ دیش اور اٖفغانستان سے پاکستان کا موازنہ کریں۔ تو افغانستان میں 200 یونٹ تک بجلی ڈھائی افغانی فی یونٹ ہے جبکہ بنگلہ دیش میں 200 یونٹ تک بجلی کا یونٹ 7 ٹکہ 20 پیسے مقرر ہے۔وہیں بھارت کی بات کی جائے تو بجلی کا فی یونٹ 6 روپے 29 پیسے مقرر ہے۔ جبکہ پاکستان میں گھریلو صارفین کیلئے بجلی کا فی یونٹ نرخ 49 روپے کا ہوگیا ہے جبکہ سیلزٹیکس کے بعد فی یونٹ 58 روپے اور ایڈجسٹمنٹ اور ٹیکسوں کے بعد فی یونٹ 68 روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
ملک میں موجودہ مہنگائی اچانک بٹن دبانے سے نہیں آئی بلکے اس کے پیچھے چھپی وہ 1فیصد اشرافیہ ہے جو قیام پاکستان کے بعد سے ہی اپنی مراعات اور لوٹ مار کے چکر میں 99 فیصد عوام کو کسی نہ کسی دلدل میں پھنسا کر خود اعلی عہدوں پر قابض ہوکر اقتدار کے مزے لوٹتی آرہی ہے۔ گذشتہ چند سالوں سے مہنگائی کا سارا ملبہ آئی ایم ایف پر ڈال کر اقتدار اور مراعات انجوائے کرنے والی اشرافیہ نے پاکستان کو تباہ کر دیا ہے۔ جس برق رفتاری سے مہنگائی ، بیروزگاری اور بجلی کی قیمتیں بڑھ رہیں ہیں لگتا ہے کہ عوام کی چیخیں اور سسکیوں کی آوازیں ایوانوں میں بیٹھے بہرے کانوں تک نہیں پہنچ رہیں۔