صدارتی نظام سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ

 صدارتی نظام سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ویب ڈیسک :لاہور ہائیکورٹ نے ملک میں صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم کرانے کے لیے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔

  ملک میں صدارتی نظام سے متعلق ریفرنڈم کروانے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ۔   لاہورہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے 6 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت صرف آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہدایت جاری کرسکتی ہے، موجودہ کیس میں کوئی ایسا فریق نہیں بتایا گیا جسے ہدایت جاری کرنی ہوں اور نہ ہی موجودہ کیس میں اس حوالے سے کوئی قانون بتایا گیا ہے، درخواست گزار کی استدعا آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے۔

 دوسری جانب پاکستان کے قریبی ہمسایہ ممالک میں ترکی ہی ایک ایسا ملک ہے جو پارلیمانی اور صدارتی نظام کو ملا جلا کے تجربے کرتا رہا ہے اور کیونکہ اس کا تعلق خلافت کے دور سے بھی ہے اس لیے پاکستان میں سیاسی نظام کی ایک مرتبہ پھر اٹھنے والی بحث میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ترکی میں تین مارچ 1924 کو خلافتِ عثمانیہ کا اختتام ہوا اور 29 اکتوبر کو ریپبلک آف ترکی وجود میں آئی جس کے پہلے صدر مصطفیٰ کمال اتا ترک بنے۔ سنہ 1982 میں ایک آئینی ریفرنڈم کے بعد وہاں ایک نیا آئین متعارف کروایا گیا۔
اس کے بعد 2017 میں مزید آئینی ترامیم کی گئیں جس کے بعد وزیرِ اعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور صدر کو ہی ریاست اور حکومت کا سربراہ بنا دیا گیا اور اس طرح ترکی ایک پارلیمانی سے صدارتی نظام والی ریاست بن گیا۔ موجودہ صدر رجب طیب اردگان وزیرِ اعظم بھی رہے اور اب مضبوط صدر بھی ہیں۔ تاہم دنیا کے مختلف ممالک کے سیاسی نظاموں کو دیکھتے ہوئے ترکی ایک مکمل ’ہائبرڈ ریاست‘ کی بہترین مثال لگتی ہے۔ ہمارے ہمسایہ قریبی ممالک میں بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی ایسے تجربے کیے ہیں لیکن وہ ایک الگ بحث ہے۔
پاکستان میں بھی گاہے بگاہے صدارتی نظام حکومت رائج کرنے کا مطالبہ سامنے آتا رہتا ہے۔ ایک آدھ بار اس کا تجربہ بھی کیا گیا لیکن زیادہ تر صدارتی نظام کی خواہش آمرانہ حکومتوں سے مارشل لا کی صورت میں ہی پوری کی گئی۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کئی مرتبہ یہ اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن موجودہ نظام کی وجہ سے وہ کر نہیں پاتے۔ آخر کیا مشکلات ہیں اور کیوں پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنے کے متعلق ایک مرتبہ پھر سے بحث میں تیزی آ گئی ہے؟