پاکستان کی سیاست کی 75 سالہ تاریخ میں شائد ہی کبھی دوبارہ نواز شریف جیسا خوش نصیب سیاستدان آئے تین مرتبہ کا وزیر اعظم بننا جلا وطن ہونا اور جب بھی آنا دوبارہ اپنی کھوئی مقبولیت کو حاصل کر لینا کسی سیاسی تجربے اور سوجھ بوجھ کی مرہون منت نہیں ہے یہ اُن کی خوش نصیبی ہی ہے جو انہیں سیاست کے ہر منجھدار سے نکال کر دوبارہ اُن کا سفینہ سیاست کی بہتی گنگا میں رواں دواں کردیتی ہے ۔
ذرا غور کریں کہ جس نے اپنے پورے سیاسی کیئرئیر میں اتنے تنازعات کا سامنا کیا جتنے تنازعات کا سامنا شائد پاکستان کے کُل سیاستدانوں نے بھی نہ کیا ہو ، نواز شریف کے متعلق یہ بات تو زبان زد عام ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں سامنے رکھے بم کو لات مار کر اپنی سیاسی سلطنت کو تباہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں لیکن اس سے بھی بڑی کاریگری تو یہ ہے کہ وہ اس سیاسی سلطنت کو دوبارہ تعمیر بھی کر لیتے ہیں اور اُس پر دھرلے سے بادشاہی بھی کرتے ہیں ، جہاں تک بات رہی" بم" کو لات مارنے کی تو پاکستان کے سیاسی کرداروں میں سے کون ایسا ہے جس کی ٹانگ سے یہ بم نہ ٹکرایا ہو ابھی تازہ ٹانگ کا پلستر تو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان صاحب کا بھی اترا ہے ۔
یہ بات تو برسبیل تذکرہ آگئی بات تو ہورہی تھی آج کی سیاست کی اور نواز شریف کی روائتی طرز سیاست کی جس میں کسی جگہ سر جھکا کر کسی جگہ سر اٹھا کر طوفانوں کا سامنا کیا جاتا ہے لیکن اب کے طوفان مشکل بھی ہے اور جدید سوشل میڈیائی ہتھیاروں سے لیس بھی اور اس کے جواب میں پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت اپنی ایسی سپاہ کے ساتھ کھڑی ہے جو 1857ء کی توڑے دار بڈھی بندوقوں کے سہارے اس کا مقابلہ کرئے گی ۔
یہ سوشل میڈیا وار ہے پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 12 کروڑ مرد و خواتین انڈرائیڈ موبائل استعمال کرتے ہیں اور اس سوشل میڈیائی جنگ کے لیے پاکستان تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے انہوں نے سب سے ذیادہ کام کیا ہے ، میں نے بڑے قریب سے اس نیٹ ورک کا جائزہ لیا ہے جس میں یونین کونسل کی سطح پر انچارج سوشل میڈیا ٹیم کا تقرر کیا گیا اور اس کے بعد ایسے نوجوانوں کو تلاش کیا گیا جو بنا سوچے سمجھے ایک ربورٹ کیطرح سوشل میڈیا پر کام کرسکتے تھے ان کو مختلف عہدوں سے نوازا گیا چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی فین فاولنگ یہاں بھی کام آئی کہ ان نوجوانوں کو عمران خان کے دستخط والے لیٹرز جاری کیے گئے گلی گلی محلے محلے ایسے نوجوان دستیاب ہوئے جنہوں نے اس لیٹر کو اپنے گھروں میں فریم کر کے ایک اعزاز کے طور پر لگایا ان نوجوانوں کے صوبائی حلقہ جاتی گروپ تشکیل دئیے گئے صوبائی کہ بعد قومی سطح پر ان گروپس کی ہائی کمان بنائی گئی اور اس کے بعد مختلف وزارتوں میں ایسے نوجوانوں کو ڈیلی ویجز پر بھرتی کیا گیا جو پیسے لیکر صرف سوشل میڈیا کے لیے کام کرتے تھے ، پاکستان تحریک انصاف کے پاس غیرملکی ڈونرزکی صورت میں اتنا پیسہ تھا کہ ہر سطح پر رقوم کی تقسیم کی جاتی تھی ملکی سطح پر بھی ایسے حضرات موجود تھے جو اس سارے عمل میں اپنی رقوم کو خرچ کرتے تھے یہ سارا نیٹ ورک چلتے چلتے اتنا مضبوط ہوگیا کہ اس کی باگ ڈور خاتون اول جنابہ بشریٰ بی بی کے ہاتھ میں آگئی ۔
ان سوشل میڈیائی جنگجوں سے نا صرف بیانئے کی تشہیر کرائی جاتی بلکہ اپنی ہی جماعت کے اندر حق و انصاف کے لیے آواز بلند کرنے والوں کی ایسی کلاس لی جاتی کہ وہ واپسی پر مجبور ہوتا اور جب تک " مُرشد" کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرلیتا اُس کے خلاف ٹرینڈ کو نیچے نہ آنے دیا جاتا اس کے لیے غیرملکی سوشل میڈیائی ٹیمیں بھی شامل ہوئیں اور رفتہ رفتہ بیانئے کی یہ لہر پاکستان کے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا تک پہنچ گئی اچھے بھلے جرنلسٹس رات کو اپنے گھروں میں سوتے اور صبح سوشل میڈیا وارئیرز کا شکار بن جاتے دیکھتے ہی دیکھتے یہ صحافی پی ٹی آئی کے کارکنان کے طور پر سامنے آئے انہیں کسی میڈیا ہاوس کی بھی ضرورت نہ رہی ایک روز میں ہزاروں ڈالرز کمانے کا ذریعہ یو ٹیوب چینلز بن گئے جس پر جس کے دل میں جو آیا اُس نے بول دیا ان کہی کہانیوں کے گرداب میں نوجوان شکار ہونے لگے اور یوں ایک ایسی نسل تیار ہوگئی جو اب ہر جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے ، پنجاب حکومت اس نسل کا سب سے بڑا فیڈینگ پوائینٹ بنا دوسرے نمبر پر خیبر پختونخواہ آتا تھا یوں سوشل میڈیا کے تمام ایپس پر پاکستان تحریک انصاف کے وارئیرز کا قبضہ ہوگیا کالج یونیورسٹیز میں ایسے اساتذہ لگوائے گئے جو بچوں کے اذہان میں ایسے پودوں کی آبیاری کرنے لگے جن پر امن شانتی کے پھولوں کی جگہ نفرت ، مایوسی اور اور کذب بیانی کے ببول اُگنے لگے ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کیا گیا مُرشد کا بنایا ہوا مکڑی کا جال اتنا کامیاب تھا کہ اس میں تحریک انصاف کی مخالف جماعتوں کے سربراہان اور لیڈر ایک کے بعد ایک کرکے پھنستے اور دھنستے چلے گئے ۔
اب آئیے پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب جو تمام جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت تھی اس لیے صرف اس کو دبا لینا ہی اس سارے منصوبے کی کامیابی کا مظہر تھی نواز دور میں ملکی معیشت کی بہتری کو منفی اور تحریک انصاف کے منفی کاموں کو ایک سو اسی ڈگری پر گھمایا گیا لیکن اس جماعت کے تمام بڑے سوتے رہے لیڈران نے صرف اپنی حد تک چند اکاونتس بنائے اور پھر مریم نواز کو خیال آیا کہ سوشل میڈیا پر بھی کام کیا جائے لیکن اس کے لیے انہوں نے 80 کی دہائی کا طریقہ کار اپنایا چند صحافیوں اور اردگرد پھیلے خوشامدی تولے پر مشتمل یہ سوشل میڈیائی ٹیم صحافت کے رمقز سے بھی ناوقف تھی بیچارے ہر اُس ٹرینڈ کا پیچھا کرتے جس ٹرینڈ کو پی ٹی آئی کے وارئیر انہیں کھلانا چاہتے تھے چند ایک بے لوث صحافیوں نے انہیں سمجھانے کی بھی کوشش کی لیکن شائد جنہوں نے اتنا اقتدار چند منظور نظر صحافیوں کے ہمراہ دیکھا تھا وہ اس ساری جنگ کی سنگینی کا ادراک بھی نہ کر پائے جس میں اُن کے ورکر بھی پراپگنڈا کا شکار ہوتے رہے ۔
یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور اسے مخالف کے ہتھیاروں سے ہی شکست دی جاسکتی ہے میاں محمد نواز شریف کی پاکستان آمد سے قبل اگر بیانئیے کی جنگ کا تدارک یا ذہنوں میں بھرے زہر کا تریاق نہ کیا گیا تو شکست پکی ہے ۔