شہباز شریف کی حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت تحریک انصاف حکومت کی نسبت کتنی بڑھی?

شہباز شریف کی حکومت کے دوران ڈالر کی قیمت تحریک انصاف حکومت کی نسبت کتنی بڑھی?
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

عوامی جمہوری اتحاد کی حکومت کے پندرہ ماہ میں مالیاتی اور اقتصادی بحران کے سبب ڈالر کی قیمت پاکستانی روپیہ کے مقابلہ میں 182 روپے سے بڑھ کر 285 روپے ہو گئی جبکہ سابق حکومت کے دور میں ڈالر کی قیمت 124 روپے سے بڑھ کر حکومت کے آخری روز 182 روپے تک پہنچ گئی تھی۔ اس طرح تحریک انصاف کے وزیراعظم عمران خان کی حکومت مین ڈالر مجموعی طور پر 58 روپے بڑھا تھا۔ 

 18 اگست 2018  کوسابق وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری سے ایک روز قبل انٹربینک میں ڈالر 124.05 پیسے پر تھا۔ 2018 کے آٹھویں مہینے تک ڈالر 13.63 پیسے مہنگا ہوا تھا۔ دسمبر تک مزید 14.81 روپے  مہنگا ہوکر  138.86روپے رہا۔ ڈالر سال 2019 کے جون تک 160 روپے ہوا۔ مالی سال 2020 کے اختتام  پر 167.67روپے ہو گیا۔ مالی سال 2021 کے اختتام پر 157 روپے 54 پیسے اور اپریل میں عمران حکومت کے اختتام پر ڈالر کی قیمت بڑھتے بڑھتے 182.93 روپے ہو چکی تھی۔

شہباز دور حکومت میں مالی سال 2022 کے اختتام پر ڈالر 204 روپے 85 پیسے تک پہنچ گیا لیکن یہاں پہنچ کر ڈالر کی اڑان رکی نہیں بلکہ مالی سال 2023 کے اختتام پر  ڈالر کی قیمت 285 روپے ننانوے پیسے ہو چکی تھی۔

آج 9 اگست کو جمہوری حکومت کی مدت ختم ہونے پر ڈالر کا نرخ 285 روپے ہے، اگست 2018 سے اگست 2023 کے دوران ملک میں ڈالر  مجموعی طور پر 160.95 روپے مہنگا ہوا۔یہ اضافہ ڈالر کی اگست 2018 سے پہلے کی قیمت سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ ڈالر کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ کے ضمن میں ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے بہت  پہلے ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اسحاق ڈار (سابق وزارت خزانہ) نے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر 104 روپے پر روک رکھا ہے۔ ان کی مسلسل تنقید اور پالیسیوں میں تبدیلیوں کے ساتھ  مسلم لیگ نون کی نواز شریف اور اس کے بعد  شاہد خاقان عباسی حکومت کے آخری دن تک ڈالر 104 روپے سے بڑھ کر 124 روپے تک پہنچ گیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے دوران قرضوں کا بوجھ بڑھنے اور فارن ایکسچینج کے ذخائر کم ہونے سے ڈالر کی قیمت بڑھتی گئی، جب شہباز شریف کی حکومت آئی تو  قرضوں کا بوجھ بدستور بڑھتا رہا، فارن ایکسچینج کی حالت بھی پتلی رہی، ملک ڈیفالٹ کے سنگین خطرہ سے دوچار رہا۔ ان کے سابق وزیر خزانہ نے ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جس کے نتیجہ میں ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھتی رہی، اسحاق ڈار نے جو ڈالر کی قیمت کنٹرول میں رکھنے کے سبب گزشتہ وزارت کے دوران تنقید کا نشانہ بنتے رہے تھے، وزارت سنبھال کر ڈالر کی قیمت کم کرنے کی جتنی کوششیں کیں یہ اتنا ہی بڑھتا گیا تاہم فارن ایکسچینج کے ذخائر کی حالت قدرے بہتر ہونے اور ڈیفالٹ کے خطرات ختم ہونے سے ڈالر کی قیمت میں گزشتہ چند ماہ کے دوران کچھ کمی آئی اور آج یہ 286 روپے ہے۔