چئیرمین تحریک انصاف کی سزا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نےٹرائل کورٹ سے ریکارڈ طلب کرلیا

Islamabad High Court, Imran Khan sentence suspension case, City42
کیپشن: File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی ڈسٹرکٹ جیل اٹک سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت شروع ہو گئی۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے سوال کیا  کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل کے بجائے ڈسٹرکٹ جیل اٹک بھیجنے کا حکم کس نے دیا۔   وعدالت نے  توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کیخلاف اپیل کی سماعت کے دوران، ٹرائل کورٹ سے ریکارڈ طلب کرنے کا نوٹس بھی جاری کروا دیا۔

 پٹیشنر کی جانب سے شیر افضل مروت ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے گزشتہ روز ملاقات کا حکم دیا تھا لیکن عدالتی حکم کے باوجود کل چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انہوں نے ملاقات نہ کرانے کی کوئی وجہ بتائی؟ جس پر وکیل شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ 6بجے تک ملاقات کا وقت ہوتا ہے، آرڈر لیٹ جاری ہوا تھا۔

 انہوں نے بتایا کہ نعیم حیدر پنجوتھا ایڈووکیٹ کو کل تفتیش کے نام پر 9 گھنٹے ایف آئی اے نے بٹھایا، آج خواجہ حارث کو بھی ایف آئی اے نے طلب کر رکھا ہے، اس طرح سے بٹھانا غیر قانونی حراست میں رکھنا ہے،جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ تفتیش کے نام پر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کو تنگ کیا جائے، قانون میں قیدی کو جو حق دیا گیا ہے وہ ضرور ملنا چاہیے، ہر کسی کے حقوق ہیں، وکیل سے ملاقات کرانے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، آپ صرف یہ خیال رکھیں کہ اس کو سیاسی معاملہ اور وہاں پر رش نہ بنائیں، ایک ایک، دو یا تین وکلا مل کر چلے جائیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں اس لئے قیدیوں کو اڈیالہ جیل راولپنڈی رکھا جاتا ہے، قیدیوں کو اٹک اور دیگر جیل بھجوانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ جس پر شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ حکومت کے پاس پنجاب میں کسی بھی جیل میں شفٹ کرنے کا اختیار ہوتا ہے،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا نواز شریف نے کوٹ لکھپت جیل جانے کی درخواست دی تھی جو منظور ہوئی تھی۔

  چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی جیل رولز کے مطابق اے کلاس کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں، اٹک کی ڈسٹرکٹ جیل میں اے کلاس نہیں اس لئے وہاں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کو بیرک کے بجائے سیل میں رکھا گیا ہے،شیر افضل ایڈووکیٹ نے کہا کہ رات کو بارش کا پانی بھی اس کمرے میں گیا جہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو رکھا گیا، ہو سکتا ہے کہ سکیورٹی کے باعث بیرک میں نہ رکھا گیا ہو، چیئرمین پی ٹی آئی کو اڈیالہ جیل میں رکھنے کا کہا گیا تھا مگر اٹک جیل بھجوا دیا گیا۔

 چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل کے بجائے ڈسٹرکٹ جیل اٹک بھجوانے کا آرڈر کس نے کیا؟ ٹرائل کورٹ نے سزا دی مگر بطور قیدی حاصل حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا،وکیل شیر افضل ایڈووکیٹ نے کہا کہ صرف جیل میں اے کلاس کے حق سے محروم کرنے کیلئے عمران خان کو اٹک جیل میں رکھا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو گھر کا کھانا فراہم کرنےکی اجازت دینےکا بھی آرڈر کیا جائے۔

 اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ قیدی کی جیل منتقلی کا فیصلہ کون کرتا ہے؟ پوچھ کر بتائیں، درخواست گزار چیئرمین پی ٹی آئی نے جیل میں اے کلاس فراہم کرنے، ذاتی معالج ڈاکٹر فیصل سے طبی معائنہ کرانے، لیگل ٹیم، خاندان کے افراد اور پارٹی کی سینئر قیادت سے ملاقات کی اجازت کیلئے درخواست دائر کر رکھی ہے۔

 خیال رہے کہ 5 اگست کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد ہمایوں دلاور نے توشہ خانہ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو 3 سال قید کی سزا دیتے ہوئے ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔

توشہ خانہ فوجداری مقدمہ میں سزا معطلی اور ضمانت کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری کررہے ہیں۔ چیرمین پی ٹی آئی کی جانب سے لطیف کھوسہ، خواجہ حارث، بیرسٹر گوہر، بابر اعوان و دیگر عدالت پیش ہوئے۔

سماعے کی ابتدا میں  بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت سے کہا کہ عدالت ایک آرڈر کر دے کہ لائرز کو تنگ نا کیا جائے۔

چیف جسٹسنے کہا کہ مجھے شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے صبح بتایا تھا۔

 شیر افضل مروت نے کہا  اب ایک ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے کہ ہم نے پولیس والوں کے کپڑے پھاڑ دیئے۔  شیر افضل مروت روسٹرم پر آگئے اور بتانے لگے کہ میں پنڈی بینچ میں بیٹھا تھا، پتہ چلا کہ میرے خلاف بھی ایف آئی آر کاٹ دی گئی ہے۔ پتہ نہیں کیا کیا لکھا ہے کہ میں نے کپڑے پھاڑ دیئے۔

 چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ فکر نہ کریں، ہم ایک ہی پیشے سے تعلق رکھتے ہیں، ہم معاملہ کو دیکھ رہے ہیں،
لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا ٹرائل کورٹ کے جج نے تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، ٹرائل کورٹ زیادہ سے زیادہ جو سزا سنا سکتی تھی وہ سنائی گئی۔  چیئرمین پی ٹی آئی کا حق دفاع ختم کیا گیا۔

حق دفاع ختم کرنے کی درخواست اس عدالت میں زیر التواء ہے۔ حق دفاع کا معاملہ زیر التواء ہونے کے باوجود فیصلہ دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے جج نے تین سال کی زیادہ سے زیادہ سزا دی، لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ

ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کردیا۔لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کی جائے۔ تین سال کی سزا جس کیس میں بھی ہو یہ شارٹ سزا ہی کہلاتی ہے۔ عدالت چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کرکے رہا کرنے کا حکم دے۔
 اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیا۔

 خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا، ہماری استدعا ہے کہ کیس کل دوبارہ سماعت کیلئے مقرر کر لیا جائے۔

 چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا ابھی ریکارڈ آنا ہے کل سماعت تو ممکن نہیں ہو سکے گی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ استدعا ہے سزا معطلی کی درخواست پر سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے۔ جس طرح ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر چلا اس درخواست پر بھی روزانہ سماعت کی جائے،۔ ہم نے کیس قابلِ سماعت قرار دینے کے خلاف دو درخواستیں دائر کیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس دوبارہ ٹرائل کورٹ کو ریمانڈ کیا۔ ٹرائل کورٹ نے ہمیں سماعت کا مناسب موقع دیے بغیر ہی فیصلہ سنا دیا۔
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے ۔ عدالت نے ٹرائل کورٹ سے ریکارڈ طلب کرنے کی بھی ہدایت جاری کی۔

لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کیس کو کل ہی سماعت کے لیے مقرر کیا جائے،

خواجہ حارث نے کہایہ ٹرائل ایسے چلایا گیا ہے کہ ہم روزانہ کوئی نہ کوئی آرڈر چیلنج کرنے ہائیکورٹ آتے تھے۔ایک طرف ہم ٹرائل چلا رہے تھے، دوسری طرف سیشن عدالت کے حکم نامے چیلنج کر رہے تھے۔ٹرائل جج نے انتہائی جلد بازی میں ٹرائل چلایا۔ہائیکورٹ نے دو درخواستوں پر 7 دن میں فیصلہ کرنے کا کہا۔ٹرائل جج نے تیسرے ہی دن فیصلہ کردیا۔تیسرے نہ صحیح، پانچویں دن فیصلہ کر دیتے، کیا جلدبازی تھی؟  آخری دن میں سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور احتساب عدالت میں مصروف تھا۔ساڑھے دس بجے ٹرائل جج کو بتایا گیا کہ میں ٹرائل کورٹ آرہا ہوں۔میرے کلرک کا تعاقب کیا گیا، اسے درخواستیں دائر نہیں کرنے دیں۔

میں نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی۔ٹرائل کورٹ نے سنے بغیر فیصلہ سنا دیا۔ خواجہ حارث نے اپنے کلرک کی مبینہ حراست کا معاملہ اٹھا دیا ۔میرے کلرک کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں مبینہ طور پر حراساں کیا گیا۔  میں ٹرائل کورٹ میں 12:15 پر پہنچ گیا۔ بتایا گیا کہ 12:30 پر فیصلہ سنایا جائے گا۔ جب جج صاحب آئے میں روسڑم پر تھا۔ میں نے درخواست دی مگر جج نے کہا میں فیصلہ سنانے لگا ہوں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی کی درخواست پر نوٹسز جاری کردیئ۔ے چیف جسٹس عامر فاروق نے حکم دیا کہ فریقین کو نوٹسز جاری کیے جائیں، مقدمے کا ریکارڈ منگایا جائے۔

خواجہ حارث نے کہا  جنہوں نے میرے کلرک کو حراساں کیا اس شخص کی تصویر دیکھی جاسکتی ہے،  یہ اس شخص کی تصویر ہے۔ میں اپنے کلرک کے وائس پیغام کا ٹرانسکرپٹ دے رہا ہوں۔ کہتے ہیں تو میں یہ پڑھ دیتا ہوں۔ کیا عدالت کو ہمیں سننا نہیں چاہیے تھا؟  کیا ملزم اور اس کے وکیل کے بغیر فیصلہ سنایا جاسکتا ہے؟ آپ میری بات نہ مانیں مگر لکھتے ہیں کسی نے قابل سماعت پر دلائل نہیں دیے ۔ میں اگر آرڈر سنانے سے پہلے پہنچ گیا تھا تو عدالت کو مجھے سننا لازم تھا۔

 چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا، خواجہ صاحب نوٹس جاری کیا ہے جواب آ جائے تو پھر دیکھتے ہیں۔

 خواجہ حارث نے کہا میں ایک دو گزارشات عدالت کے سامنے کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے سنے بغیر ایک فیصلہ لکھ دیا گیا تو اسکی کیا اہمیت ہے۔ آپ نے چھ ماہ سننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فیصلہ سنے بغیر دیا گیا، کسی گواہ نے نہیں کہا کہ جو کچھ کیا گیا وہ دانستہ اور جانتے بوجھتے تھا۔ اگر ایسا کچھ لکھا گیا تو وہ جج صاحب نے اپنی جانب سے ہی لکھا ہے۔

 چیف جسٹس نے بتایا کہ کل کیس کو سماعت کے لیے رکھنا ممکن نہیں ہے، کل میرے میڈیکل چیک اپ ہیں۔

 خواجہ حارث نے اس پر کہا کہ ایسا نہ ہو دیگر کیسز میں ضمانت خارج ہوجایے ،

 چیف جسٹس نے کہا ایسا نہیں ہوتا کہ ایک میں آپ گرفتار ہوں تو دوسرے میں بھی گرفتاری ہوجائے، آصف زرداری کیس میں ہم طے کر چکے ہیں۔لطیف کھوسہ نے کہا،  12 بجے ٹرائل کورٹ نے فیصلہ سنایا اور ساڑھے بارہ بجے 30 صفحات کا فیصلہ جاری کردیا،  اس سے بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ فیصلہ پہلے سے لکھا گیا تھا۔

عدالت نے کیس کی سماعت ملتوی کردی اس موقع پر چیف جسٹس عامر فاروق نے دوبارہ کہا، آپکا کیس جلد لگا دینگے لیکن کل سماعت ممکن نہیں ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ میں نے تمام گزارشات کر دی ہیں، باقی آپ دیکھ لیں۔

 چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا، میری طبیعت خراب ہے، کل شاید میں کورٹ نہ لگاؤں۔

 خواجہ حارث: ہماری اپیل پر سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے، ٹرائل کورٹ میں بھی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہوتی تھی۔

چیف جسٹس: لیکن ہم کوشش کریں گے کہ اس کو جلدی مقرر کیا جائے۔
 چیئرمین پی ٹی آئی کی اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ملتوی کر دی۔عدالت نے فریقین کو صرف نوٹس جاری کیئے، سزا معطل نہ کی