ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

توہین عدالت کیس، عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ

توہین عدالت کیس، عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ نے  خاتون جج کو دھمکیاں دینے سے متعلق توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر فرد جرم عائد کرنےکا فیصلہ کرلیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ  نے کیس کی سماعت کی، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ان کے وکیل حامد خان اور دیگر وکلاء عدالت میں پیش ہوئے,عدالت نے عمران خان کو توہین عدالت کیس میں معافی کا موقع دیا لیکن عمران خان نے ایک بار پھر غیر مشروط معافی مانگنے سے گریز کرتے ہوئے دھمکی دینے کے اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔

 عدالت نے عمران خان کا جمع کرایا گیا جواب غیر تسلی بخش قرار  دیتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین پر توہین عدالت کے مقدمے میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ سنادیا، ان پر 22 ستمبر کو فرد جرم عائد کی جائے گی۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نےآخر میں ریمارکس دیتے ہوئے  کہا کہ عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں ان پر دو ہفتے بعد فرد جرم عائد کی جائے گی، جب بھی کوئی سیاسی لیڈر عدالت آتا ہے ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے۔

عدالت کی آبزرویش کے مطابق ہم نے جواب جمع کرایا: عمران خان کے وکیل

دوران سماعت عمران کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کی آبزرویش کے مطابق ہم نے جواب جمع کرایا، عدالت کو گزشتہ روز ضمنی جواب جمع کرایا گیا، ہم اس معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں، موقع دینے پر عدالت کے شکر گزار ہیں۔

عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ چاہتے ہیں عدالت توہین عدالت کی کارروائی ختم کر دے۔ عدالت نے وکیل حامد خان کو سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلوں کے پابند ہیں،جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ عدالت نے طلال چوہدری اور دانیال عزیز کیسز پڑھنے کی ہدایت کی تھی، وہ دونوں کیسز عمران خان کیس سے بالکل مختلف ہیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ  نے کہا کہ توہین عدالت تین طرح کی ہوتی ہے جسے فردوس عاشق اعوان کیس میں بیان کیا گیا، ایک جوڈیشل توہین عدالت اور ایک فوجداری توہین عدالت، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کے خلاف کرمنل توہین عدالت کی کارروائی نہیں تھی، ان کے خلاف عدالت کو اسکینڈلائز کرنے کا معاملہ تھا، ان تین عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینے کا مقصد تھا، ایک سول توہین عدالت ہے۔

 کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کرمنل توہین میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکتے:جسٹس اطہر من اللہ

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا جواب تفصیلی پڑھا، فیصلے میں حوالہ توہین عدالت کی اقسام میں فرق سے متعلق دیا گیا، سپریم کورٹ کے فیصلے پر ہم پابند ہیں، سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کا مسرور احسن بنام اردشیر کاوس جی کیس دیکھیں، مسرور احسن بنام اردشیر کاوس جی کیس کا پیرا گراف نمبر 96 پڑھیں۔

عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت کے کہنے پر توہین عدالت کیس کا ایک فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ معافی کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا عدالت کے اطمینان پر منحصر ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ کرمنل توہین بہت حساس معاملہ ہوتا ہے، کرمنل توہین میں آپ کوئی توجیہہ پیش نہیں کر سکتے، ہم اظہار رائےکی آزادی کے محافظ ہیں لیکن اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بہت بڑا جرم کیا گیا لیکن احساس نہیں ہے، عوامی مقامات پر کسی کی بھی بے عزتی کردی جاتی ہے، اتنی تقسیم سوسائٹی میں ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر اس جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہوگا؟ ہم نے وکلا تحریک کے ثمرات حاصل نہیں کیے۔

جسٹس اطہر من اللہ کا حامد خان  سے مکالمہ

جسٹس اطہر من اللہ نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اب سپریم کورٹ کا شاہد اورکزئی کیس کا فیصلہ پڑھیں، اب تو ہین عدالت قانون کا سیکشن 9 پڑھیں۔

ان کا کہنا تھا اتنی پولارائزڈ سوسائٹی ہے کہ فالورز مخالفین کو پبلک مقامات پر بےعزت کرتے ہیں، اگر اس خاتون جج کے ساتھ بھی ایسا ہو جائے تو پھر کیا ہو گا؟

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ماتحت عدلیہ اس عدالت کی ریڈلائن ہے، ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور ڈسٹرکٹ جوڈیشری ریڈ لائن ہے، آپ نے اپنے جواب میں جسٹیفائی کرنے کی کوشش کی۔

عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جسٹیفائی نہیں، وضاحت کرنے کی کوشش کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سابق وزیراعظم لاعلمی کا عذر پیش کر سکتے ہیں؟ جرم انتہائی سنگین ہے جس کا احساس نہیں ہوا، ہم نے صرف قانون کو دیکھنا ہے۔

حامد خان کا کہنا تھا ہمیں احساس ہے اس لیے جواب میں وہ باتیں لکھی ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا آپ خود ہی بتائیں کہ کیا آپ کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق درست ہے؟ حامد خان نے جواب دیا کہ عمران خان نے جواب میں کہا ہے کہ ضلعی اور اعلیٰ عدلیہ کا احترام کرتا ہوں، عمران خان نے کہا کہ شہبازگل پر تشدد کی وجہ سے بیان دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ نے جواب میں مبینہ تشدد کا لفظ نہیں لکھا، کیا یہ فیصلے جلسوں میں ہوں گے یا عدالتیں کریں گی؟ عدالت کے گزشتہ آرڈر کے بعد بھی یہ جواب فائل کیا گیا، کیا آپ اس کیس کو لڑنا چاہتے ہیں؟

 عمران خان کی جانب سے عدالتی حکم پر ضمنی جواب جمع

 سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے عدالتی حکم پر ضمنی جواب جمع کرایا جا چکا ہے، جس میں عمران خان نے خاتون جج سے متعلق بیان پر اظہار افسوس کیا۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا تھا کہ عدلیہ کےخلاف توہین آمیزبیان کاسوچ بھی نہیں سکتا، لفظ شرمناک توہین کے لیے استعمال نہیں کیا۔

 جواب میں کہا گیا تھا کہ جج زیباچوہدری کے جذبات مجروح کرنا مقصد نہیں تھا، جج زیبا چوہدری کے جذبات مجروح ہوئے اس پر گہرا افسوس ہے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ غیرارادی طور پر منہ سے نکلے الفاظ پر گہرا افسوس ہے، عدالت کو یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ ایسے معاملات میں انتہائی احتیاط سے کام لوں گا۔ چیرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ضمنی جواب میں عدالت شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی۔