ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مقدمہ درج کرانےکے15 سال بعد بھی لاہور پولیس نوجوان کو بازیاب نہ کراسکی

مقدمہ درج کرانےکے15 سال بعد بھی لاہور پولیس نوجوان کو بازیاب نہ کراسکی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ملک اشرف: مقدمہ درج کرانےکے15 سال بعد بھی لاہور پولیس نوجوان کو بازیاب نہ کراسکی، ہائی کورٹ میں نوجوان بازیابی کیس کی سماعت کل نواکتوبر کوہوگی، عدالت نےایس ایس پی انویسٹی گیشن کو ذاتی حیثیت میں طلب کررکھا ہے۔


 تفصیلات کے مطابق جسٹس شہرام سرور چوہدری نےمحمد سرور کی درخواست پر حکم جاری کیا، درخواست گزار کی جانب سےموقف اختیار کیاگیا کہ اس کا بیٹا محمد ناصر 2004 سےلاپتہ ہے، 2005 میں تھانہ گارڈن ٹاؤن میں مقدمہ بھی درج کرایا، مسنگ پرسن کمیشن سے بھی رجوع کیا۔

پندرہ سال سےمقدمہ درج کرانے کے باوجود تاحال پولیس اسکے بیٹےکوبازیاب نہیں کرسکی، دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک گیا، پولیس بیٹے کوبازیاب نہیں کر سکی، درخواست گزار کی جانب سےاستدعا کی گئی کہ عدالت پولیس کواسکےبیٹے کی بازیابی کا حکم دے، سرکاری وکیل نے موقف اختیار کیا کہ نوجوان کی بازیابی کے لئے پولیس تمام وسائل استعمال کررہی ہے۔

سرکاری وکیل نے نوجوان کی بازیابی کےلیےمہلت کی استدعا کی تھی جس پر عدالت نے کیس کی سماعت نو کتوبر تک ملتوی کرتے ہوئے ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔

 دوسری جانب محکمہ پراسیکوشن اور فوجداری مقدمات درج کرنےوالی صوبائی ایجنسیوں کےلائزن  کے لئے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سرفراز احمد کھٹانہ کو فوکل پرسن مقرر کردیاگیا۔ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب رانا عارف کمال نون کی منظوری کےبعدنوٹیفکیشن جاری کیاگیا۔

فوکل پرسن سرفراز احمد کھٹانہ ہائیکورٹ اور متعلقہ صوبائی ایجنسیوں کےدرمیان لائزن کا کردار ادا کریں گے، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سرفراز احمد کھٹانہ فوکل پرسن کی حیثیت سےہائی کورٹ اور پولیس،سی ٹی ڈی،اینٹی کرہشن سمیت دیگر ایجنسیوں کے درمیان لائزن رکھیں گے۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سرفراز احمد کھٹانہ کو فوکل پرسن مقرر ہونے پر مبارکباد جارہی ہے، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سرفراز احمد کھٹانہ نےاظہار تشکرکرتے ہوئے کہا ہے کہ پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے جو ذمہ داری دی ہے انشاء اللہ اس پر پورا اتروں گا، ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹرجنرل کو فوکل پرسن مقرر کرنےکا مراسلہ لکھا گیا تھا۔

Shazia Bashir

Content Writer