جاں بحق ہونیوالے اے ایس آئی نوید اقبال کی آخری گفتگو 

ASI Naveed iqbal die
کیپشن: ASI Naveed iqbal
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)تفریح کے لیے مری کا سفر ایک ہی خاندان کے لیے موت کا سفر بن گیا ، اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی نوید اقبال اپنے خاندان کے ساتھ مری کی سیر کے لیے گئے۔جاں بحق ہونے والوں کی آخری گفتگو سامنے آگئی۔

تفصیلات کےمطابق مری میں برفانی طوفان نے سب کچھ جمادیا،21 سیاح گاڑیوں میں ٹھٹھر کر موت کی وادی میں جا سوئے، اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی اور  تلہ گنگ کے رہائشی نوید اقبال اپنی بیوی بچوں سمیت جاں بحق ہوگئے،نوید اقبال کے کزن طیب گوندل کاکہناتھا کہ وہ اپنی تین بیٹیوں، ایک بیٹے، بہن، بھانجی اور بھتیجے کےساتھ تھے، میں اس لیے بچ گیا کہ ہم لوکل ٹرانسپورٹ سے گئے اور نوید اپنی گاڑی سے گئے تھے، نوید نے شام 6 بجے کال کی کہ ہم پھنس گئے ہیں‘۔

نوید سے میرا رابطہ آخری بار صبح 4 بجے ہوا جس پر نوید نے سی پی او ساجد کیانی کا نمبر مانگا، میری ان سے بھی بات ہوئی، انہیں نوید کی ریکارڈنگ بھیجی مگر انہوں نے دیکھ کر کوئی جواب نہیں دیا‘۔

طیب گوندل کا کہناتھا کہ’جی ٹی روڈ اور موٹروے نیچے سے کلیئر تھی مگر جہاں سے برفباری شروع ہوئی وہاں شدید ٹریفک کا سامنا کرنا پڑا جہاں سے کسی صورت واپسی ممکن نہیں تھی، ہمیں انتطامیہ نے کہیں آگے جانے سے نہیں روکا،  اگر مجھے پتا چلتا تو نوید کو واپس بلا لیتا‘۔

نوید اقبال کے کزن نے مزید بتایا کہ ’ میں نے ایس ایس پی ٹریفک سے بھی رابطہ کیا، سوشل میڈیا پر خبریں دیں، بطور صحافی وزیراعظم عمران خان، عثمان بزدار، شیخ رشید اور فواد چوہدری کے ذاتی واٹس ایپ پر میسج کیے مگر کوئی جواب نہیں آیا، صرف شیخ رشید نے پریس ریلیز  جاری کی کہ اقدامات کیے جارہے ہیں جب کہ سی پی او غفلت کا مظاہرہ نہ کرتے تو جانیں بچ جاتیں‘۔

طیب گوندل نےبتایا کہ ’ نوید اقبال دل کے مریض تھے، ان کے ساتھ بچے بھی تھے، نوید سے آخری بار رابطہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ  آپ ہی مجھے نکال سکتے ہو، مجھے اگر پتا ہوتا حکومت اتنی نااہل ہے تو خود کچھ کرلیتا‘۔

اے ایس آئی نوید اقبال نے اپنی آخری گفتگو  میں کہا تھا کہ برفباری زیادہ ہوئی ہے، روڈ بلاک ہے ،بچے پریشان ہیں کھانے پینے کیلئے بھی کچھ نہیں ہے ،نہ کوئی پولیس والا نہ کوئی ٹریفک والا گاڑیاں ہٹوانے آیا اللہ کرے کوئی سسٹم بن جائے اور ہم یہاں سے نکل جائیں۔

M .SAJID .KHAN

Content Writer