ویب ڈیسک: وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جب ریلہ آیا تو اس نے کچھ نہیں چھوڑا، ہوٹلز اورگھروں سمیت سب بہا کر لے گیا، دریا کے پیٹ میں ہوٹلوں کے قیام کی قانون اجازت نہیں دیتا، سوات میں انسانی فحاش غلطی ہوئی ہے۔
وزیراعظم آج ڈیرہ اسماعیل خان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے پر پہنچے تو اس موقع پر نیشنل ہاویز اتھارٹی کی جانب سے انہیں سگو پل سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمان، مولانا اسعد ، انجینیر امیر مقام سمیت دیگر حکام بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے حکام کا کہنا تھا کہ سڑکوں اور پلوں کی بحالی کیلئے این ایچ اے نے دن رات کام کیا ہے، سیلاب متاثرین کیلئے تمام ادارے مل کر کام کر رہے ہیں۔ ایک مرتبہ پھرمصیبت کی گھڑی میں حاضر ہوا ہوں، مختلف جگہوں پر بزرگوں، ماؤں اور بہنوں کو جا کر تسلی دی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ سیلابی صورت حال کے جائزے کیلئے دوبارہ ڈیرہ اسماعیل خان آیا ہوں۔ قمبر شہداد کوٹ اور دوسرے علاقوں کے دورے کئے، طرف پانی ہی پانی ہے۔
اس موقع پر دیگر اداروں اور پاک افواج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انتظامیہ اور افواج پاکستان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، ان لوگوں نے ایسے ایسے علاقوں میں جا کر لوگوں کی مدد کی ، جہاں پہنچنا نا ممکن تھا۔4 روز پہلے آرمی چیف نے یہاں بحری برج بنانے کا حکم دیا۔سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان آیا یہ ڈویژن بارشوں سے بمشکل نکل رہے تھے، سیلاب نے ملک بھر میں تباہی مچائی، کے پی کے میں الحمد اللہ پانی نیچے آرہا ہے۔
سوات میں ہونے والے بڑے پیمانے پر نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوات میں انسانی فحاش غلطی ہوئی ہے۔ دریا کے پیٹ میں ہوٹلوں کے قیام کی قانون اجازت نہیں دیتا، جب ریلہ آیا تو اس نے کچھ نہیں چھوڑا، ہوٹلز اور گھر بہہ گئے، گلگت بلتستان میں سیلابی ریلے نے گھر کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے 28 ارب روپے سیلاب متاثرہ گھروں کیلئے مختص کئے ہیں۔ 28 ارب میں سے 20 ارب شفاف طریقے سے تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ 8ارب روپے چند روز میں تقسیم ہوجائیں گے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا تخمینہ 70 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ بارشوں سے متاثرہ ہر خاندان کو 25 ہزار روپے پہنچائیں گے۔ روزانہ کی بنیاد پر کام کی رپورٹس مل رہی ہیں۔ پانی کے وبائی امراض کا چیلنج درکار ہے۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ 6 لاکھ خواتین سیلاب زد علاقوں میں موجود ہیں۔ صاف پانی مہیا کرنا، گھروں کو دوبارہ آباد کرنا کھربوں کا کام ہے۔ دوست ممالک ہماری امداد کر رہے ہیں، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ چیلنج بہت بڑا ہے،ایک ایک پائی امانت ہے جو جا کرحقداروں کو دینی ہوگی۔