ججز خط کا معاملہ، اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے، چیف جسٹس

ججز خط کا معاملہ، اٹارنی جنرل سمیت حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے، چیف جسٹس
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔

 چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بنچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افنان بنچ کا حصہ ہیں۔

 دوران سماعت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ میں تجاویز جمع کرا دیں،تجویز میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گی، عدلیہ میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف تحقیقات ہونی چاہئیں، ججز کی ذمہ داریوں اور تحفظ سے متعلق مکمل کوڈ آف کنڈکٹ موجود ہے۔

 تجویز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے پاس توہین عدالت کا اختیار موجود ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کو کسی قسم کی مداخلت پر توہین عدالت کی کارروائی کرنی چاہیے تھی، ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے خط میں گزشتہ سال کے واقعات کا ذکر کیا ہے۔

 اس میں بتایا گیا ہے کہ ججز کا خط میڈیا کو لیک کرنا بھی سوالات کو جنم دیتا ہے، کسی بھی جج کو کوئی شکایت ہو تو اپنے چیف جسٹس کو آگاہ کرے، اگر متعلقہ عدالت کا چیف جسٹس کارروائی نہ کرے تو سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جائے۔

 بعد ازاں اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے جواب جمع کرانے کیلئے وقت مانگ لیا، وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ مجھے گزشتہ آرڈر کی کاپی ابھی نہیں ملی تھی، مجھے اس کیس میں وزیراعظم سے بھی بات کرنی تھی۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرڈر پر تین دستخط ابھی بھی نہیں ہوئے،اس کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں ججز کو آرڈر کاپی دستخط کرنے کے لئے دے دی گئی۔

 جسٹس منصورعلی شاہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آپ کو وقت چاہیے ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مجھے کل تک وقت دے دیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ آج کون دلائل دینا چاہے گا؟جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ ہم 45 منٹ میں اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔

 اس موقع پر اعتزاز احسن کی جانب سے خواجہ احمد حسین عدالت میں پیش ہوگئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہم پہلے وکلا تنظیموں کو سنیں گے،اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ بار، بلوچستان ہائی کورٹ بار اور بلوچستان بار کونسل کے وکیل حامد خان عدالت میں پیش ہوئے۔

 حامد خان نے دلائل کیلئے ایک گھنٹے کا وقت مانگ لیا۔