آئے روز کے تقرروتبادلے

آئے روز کے تقرروتبادلے
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قٰصر کھوکھر) پنجاب حکومت سارا سال تقرر و تبادلوں میں مصروف عمل رہتی ہے اور افسران گھبرائے رہتے ہیں کہ کب کون کہاں بھیج دیا جائے اور یہ تبادلے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ہو رہے ہیں۔ افسران کی تقرری کا دورانیہ بھی مکمل نہیں کرایا جاتا ہے اور تحصیل اور ضلع کی سطح کے افسران کے تبادلے مقامی ایم این اے اور ایم پی اے کی سفارشوں پر کئے جا رہے ہیں۔ اس وجہ سے حکومت اور افسر شاہی میں ایک خلیج پیدا ہوتی جا رہی ہے، فیلڈ کے ساتھ ساتھ پنجاب سول سیکرٹریٹ میں بھی آئے روز بغیر کسی ٹھوس وجہ کے سیکرٹری تبادلے ہو رہے ہیں۔

سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ،سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کتنی بار تبدیل ہو چکے ہیں۔ محکمہ ہائر ایجوکیشن میں سیکرٹری کی سطح کے بار بار ٹرانسفر ہونے سے محکمہ ہائر ایجوکیشن کی پالیسیوں اورکام کے تسلسل پرمنفی اثر پڑ رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن کی کارکردگی سست روی کا شکار نظر آ رہی ہے اور محکمہ کے کئی کالجز میں اہم ترین اسامیاں بھی خالی پڑی ہیں۔ محکمہ سروسز کے سیکرٹری کو کئی کئی بار تبدیل کیا جا چکا ہے۔ کئی اضلاع کے ڈی سی اور کمشنر لاہور کو بھی حال ہی میں تبدیل کیا گیا ہے۔تبادلے بغیر کسی وجہ کے ہور ہے ہیں ،اگر ایک افسر محکمہ میں چل نہیں سکا تو اسے دوسرے محکمہ میں کیوں مسلط کردیا جاتا ہے؟ جب کوئی تبادلہ ہوتا ہے تو اس افسر کی فائل میں درج ہونا چاہئے کہ اسے کس وجہ سے تبدیل کیا جارہا ہے اور پھر اسے دوبارہ تقرری نہ دی جائے اور حکومت کا ہر افسر کا تین سال کا دورانیہ مکمل کرانے سے قبل ہی تبادلے کرنا سمجھ سے بالا تر ہے ۔

تین سال کے لئے ڈی سی، ڈی پی او یا سیکرٹری اور کمشنر اور چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو لگایا جائے پھر تین سال تک اسے بغیر کسی سیاسی دباﺅ کے کام کرنے دیا جائے تاکہ وہ اپنا ان پٹ دے سکے اور اس ان پٹ کی بنیاد پر اس افسر کو اگلے گریڈ میں ترقی دی جا سکے۔ سال 2008ءسے لے کر اب تک سیکرٹری اوقاف20 سے زائد بار تبدیل ہو چکے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس محکمہ اوقاف میں کسی بھی سیکرٹری نے ٹک کر کام نہیں کیا۔ محکمہ بلدیات میں بھی گزشتہ دس سالوں میں درجنوں سیکرٹری تبدیل ہو چکے ہیں۔ لہٰذا یہ سیکرٹری جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جلد ہی ٹرانسفر کر دیا جائے گا وہ تعیناتی کے ساتھ ہی گاڑیاں اور دیگر سہولتیں لیتے ہیں اور ٹرانسفر ہو کر اگلے محکمہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ چل چلاﺅ لگا رہتا ہے اور محکمانہ ترقی کا عمل رک جاتا ہے لیکن افسر شاہی کی ترقی جاری رہتی ہے۔ سابق چیف سیکرٹری ناصر محمود کھوسہ کے دور میں افسران کی تعیناتی کا دورانیہ مکمل کرایا جاتا تھا ،جس سے افسر شاہی میں ایک استحکام پیدا ہوتا تھا اور اس ٹھہراﺅ سے محکمانہ امور بہتر طور پر نمٹائے جاتے تھے اب ہمارے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کو حکومت اور انتظامی معاملات کی بہتر طور پر شاید سمجھ ہی نہیں آ رہی جس سے پنجاب حکومت افسر شاہی کو بغیر کسی وجہ کے آئے روز ٹرانسفر کر رہی ہے ۔

 موجودہ حکومت نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام سے ووٹ حاصل کئے تھے اور عوام سے الیکشن کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ تبدیلی لے کر آئیں گے اور عوام کے روز مرہ کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا اور یہ کہ پرانا اور فرسودہ نظام تبدیل کر دیا جائے گا ۔لیکن موجودہ حکومت بھی سابقہ حکومت کی ڈگر پر چل نکلی ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد بزدار سابقہ وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی طرز پر حکومت چلانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ہر ڈویژن کی سطح کے ارکان اسمبلی سے ملنا شروع کر دیا ہے جس میں اس ڈویژن کی نوکر شاہی کو بھی بلایا جاتا ہے اور اس طرح افسرشاہی کو ارکان اسمبلی کے سامنے بٹھاکر ارکان اسمبلی کی شکایات پر ان کی باز پرس کی جاتی ہے اور اگر ارکان اسمبلی کی شکایت زیادہ سخت ہو تو اس افسر کا موقف سنے بغیر ہی اسے ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔

 ایسا طریقہ کار ماضی کے حکمران اپناتے تھے لیکن موجودہ حکومت کا ماضی کی حکومت کی پالیسیوں کو اپنایا جانا ایک افسو سناک عمل ہے۔ حکومتِ وقت کو چاہئے کہ الیکشن کے دوران کئے جانے والے وعدے پورے کرے اور پارٹی منشور کے مطابق کام کیا جائے اور عوام کو افسر شاہی کے چنگل سے نکال کر ان کے جائز اور اصلی کام بغیر کسی رکاوٹ کے کئے جائیں۔ افسر شاہی کو عوام کے تابع کیا جائے اور دفاترمیں اوپن ڈور پالیسی اپنائی جائے اور عوام کو سرکاری محکموں میں زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔افسران کے بے تحاشا اورمقررہ مدت سے قبل تبادلوں کوبھی روکا جائے اور انہیں اپنے انداز میں کام کرنے دیا جائے۔اس سے جہاں عوامی مسائل حل ہوں گے وہاں گورننس میں بھی بہتری آئے گی

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر