ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

14 مئی کو انتخابات اور ماما جی کی عدالت، ہنسنا منع ہے !!

14 مئی کو انتخابات اور ماما جی کی عدالت، ہنسنا منع ہے !!
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

عامر رضاخان: میری ایک عادت بہت بری ہے ،کئی مرتبہ باقاعدہ مار پڑتے پڑتے بچی کہ عین اسوقت جب کوئی بہت سنجیدہ ہو تو اور منہ بھی ویسا ہی بنا رہا ہو کہ جیسے کو بہت ہی سنجیدہ موضوع ہے، زندگی موت کا مسئلہ ہے تو میری ہنسی چھوٹ جاتی ہے کل مارننگ شو ’سٹی ایٹ ٹین‘ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب ہماری اینکر انا یوسف سنجیدگی سے یہ خبر پڑھ رہی تھیں کہ الیکشن کمیشن نے 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا شیڈول جاری کردیا ہے، فلاں تاریخ کو کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے اور فلاں اپریل کو جانچ پڑتال ،ایک جانب وہ یہ خبر پڑھ رہیں تھی تو سامنے علی ساہی کے ساتھ بیٹھا میں پوری کوشش سے اپنا قہقہہ روکے مسکرا رہا تھا ، پروگرام کے آداب بھی یہی ہے کہ آپ تجزیہ کار کی طرح کا پھولا ہوا منہ بنا کر غیر سنجیدہ باتوں کو بھی سنجیدگی کا رنگ پہنائیں کہ سکرین کی دوسری جانب بیٹھا خالی دماغ آدمی گھر بیٹھے ہی اس خوف میں دن گزارے کہ پاکستان تو بس ڈوبا کہ ڈوبا یا سیاست کا بھونچال آیا کہ آیا اور مارشل لاء کا دروازہ کُھلا کہ کُھلا ،یہ میڈیا کے نام پر روزی روٹی ایسا ہی سلسلہ ہے لیکن یہ کام مجھ سے نہیں ہوپاتا کہ بقول علامہ محمد اقبال ؒ ؎ 

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق 

 نے آبلۂ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند 

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش 

میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند 

اپنے 27 سالہ صحافتی کیرئیر میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ،لوگوں کو ہیر وبنے بھی دیکھا اور زیرو ہوتے بھی ، ہوٹل میں "سپلائی لائن " کا کام کرتے لوگوں کو سینئر تجزیہ کار بنتے بھی دیکھا اور فحش فلموں کے کاروبار سے چینل بنتے بھی دیکھے لیکن اپنی روش کو صرف پیسے کے لیے تبدیل نہیں کیا ،شاید اسی لیے اتنے لمبے کیرئیر میں دس سالہ رفاقت ’روزنامہ خبریں‘ کے ساتھ وابستگی کی ہے اور اب 15 سال سے ’سٹی نیوز نیٹ ورک‘ کے ساتھ کام کرہا ہوں کہ صحافت میرے لیے پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں ایک شوق ہے، میں صحافت پڑھ کر مجبوراً اس پیشے میں نہیں آیا بلکہ بائے چوائس اسے پروفیشن بنایا کیسے اس کا افسانہ پھر کسی دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں کہ یہ آج کے بلاگ کا موضوع ہی نہیں ہے ۔

بات تو شروع ہوئی تھی 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات اور اس حوالے سے آنے والے تاریخی فیصلے کی ،جس پر میری ہنسی نکل گئی دراصل جب انا یوسف خبر پڑھ رہی تھیں، مجھے اپنے ایک فری لانس صحافی بھائی طارق محمود جہانگیری کی تحریر یاد آگئی جو انہوں نے ماما جی کی عدالت کے عنوان سے ایک وٹس ایپ گروپ میں بھیجی تھی تحریر کیا ہے آپ بھی پڑھ لیں "ایک زمانے میں ہمارے ہاں بڑی کمال کی پنجابی فلمیں بنا کرتی تھیں!۔

 اُسی زمانے کی ایک فلم یکے والی جوکہ عید الفطر کے موقع پر 1957 کو نمائش کی گئی۔

اس فلم میں شہنشاہِ ظرافت   ظریف گاﺅں میں جنم لینے والے ہر جھگڑے کے خاتمے کے لیے اپنی ’منجھی‘ اُٹھائے موقعہ واردات پر پہنچ جاتے! اور اپنی ’منجھی‘ بچھا کر ’ماما جی کی عدالت‘ لگا لیتے! اور فیصلہ صادر کرتے ہی اپنی ’منجھی‘ سمیت کسی اور موقعہ واردات کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے!

 اس فلم میں ایک بہت پیچیدہ سا تنازعہ اُٹھ کھڑا ہوا!

 اس فلم کا ایک کردار ایک چھوٹے سے زمین کے ٹکڑے پر ایک بھٹی لگائے روٹی روزی کما رہا تھاکہ اس قطعہ اراضی کا مالک گاﺅں لوٹ آیا! اوراُس نے آتے ہی اپنی اراضی پر لگائی گئی یہ ’غیر قانونی‘ بھٹی مسمار کر دی! اور یوں ماما جی کے لیے عدالت لگانے کا ایک سنہرا موقع فراہم کر دیا! ماما جی اپنی ’منجھی‘ سمیت وہاں پہنچ گئے! اور ’منجھی‘ بچھاکر ’عدالتی کارروائی‘ کا آغاز کر دیا! فریقین کے دلائل سننے کے بعد اُنہوں نے فیصلہ صادر فرمایا، ’توں بھٹی بنائی جا! تے، توں بھٹی ڈھائی جا!" 

 یہ تھی وہ تحریر جس نے مجھے ہنسنے پر مجبور کیا 14 مئی کے فیصلے سے پہلے ایک تاریخ صدر مملکت جناب عارف علوی نے دی جو 30 اپریل تھی جس کے جواب میں الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر کی تاریخ دی اور اب عدالت (ماما جی کی عدالت نہیں ) نے 14 مئی کی تاریخ دے دی ہے جس کو حکومت نے پہلے کابینہ میں ماننے سے انکار کیا اور پھر کل قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی اس فیصلے کے خلاف قرارداد پیش کردی گئی جو کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ہے، یوں وہ لڑائی جو قانونی بحثوں کی صورت سپریم کورٹ میں لڑی جانی تھی نکل کر قانون ساز ایوانوں میں پہنچ گئی ہے ،دونوں جانب ’میں نہ مانوں‘ جیسی صورتحال ہے جو کسی بھی طالح آزما کے لیے زرخیز کھیت سے زیادہ کچھ نہیں، جسے وہ اپنی درانتیوں سے کاٹ کھائے اور کسی کے حصے میں کچھ نہ آئے ۔ 

 باقی رہی بات میرے پروگرام میں تبصرے کی تو میرے خیال کے مطابق حکومت 23 اپریل تک یونہی لفظی گولہ باری جاری رکھے گی اور جیسے ہی عدلیہ ریفارم بل کی صدر کے گھر مدت معیاد پوری ہوجائے گی اس فیصلے کو فُل بنچ کے لیے دائر کردیا جائے گا ،جس کے بعد قانونی راستہ تلاش کیا جائے گا لیکن اس دوران الیکشن 14 مئی سے آگے نکل جائیں گے کہ قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین کے فیصلے کی سیاحی خشک ہونے سے پہلے ہی تین رکنی بنچ نے اپنی سماعت کرلی، فیصلہ بھی سنادیا قانونی ماہرین کے مطابق حکومت کو صرف قاضی فائز عیسیٰ بنچ کا فیصلہ ہی ایک ایسی محفوظ کشتی  ہے جو انہیں اس سیاسی بھنور سے نکال سکتی ہے ۔