ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم،عدم اعتماد برقرار، اسمبلی بحال، تاریخی فیصلہ آگیا

چیف جسٹس عمر عطا بندیال
کیپشن: Chief Justice Umer Ata Bandial
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دی جبکہ وزیراعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم بھی غیر آئینی قرار پایا ہے۔ عدالت نے تحریک عدم اعتماد سے متعلق اجلاس 9 اپریل کو بلانے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلے میں کہا ہے کہ 3 اپریل کے بعد سے وزیراعظم کے تمام اقدامات کالعدم قرار دئیے جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دیتے ہوئے  قومی اسمبلی کو بحال کردیا۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے چار روز سماعت کے بعد از خود نوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ جاری کیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ تحریک عدم اعتماد پر اسمبلی اجلاس 9 اپریل کو بلایا جائے اور عدم اعتماد کو جلد از جلد نمٹایا جائے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسمبلی کی کارروائی جاری رہے گی۔کسی ممبر کو ووٹ دینے سے نہیں روکا جائے گا۔ آرٹیکل 63 اے سے متعلق اس فیصلے کا عمل نہیں ہوگا۔

عدالتی فیصلے کے بعد وفاقی کابینہ بھی بحال ہوگئی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو نئے وزیراعظم کا انتخاب کیا جائے۔ نگراں حکومت کے قیام کیلئے صدر اور وزیراعظم کے اقدامات بھی کالعدم ہوگئے ہیں۔ 

چیف جسٹس نے فیصلہ سنانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر سے استفسار کیا کہ بتائیں انتخابات کب تک ہوسکتے؟ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا  ہم ہر وقت تیار رہتے ہیں۔حلقہ بندیوں کا مسئلہ ہے۔ہم نے حلقہ بندیوں سے متعلق کئی خطوط لکھے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پورے ملک کی حلقہ بندیاں کرنی ہیں کیا؟ چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا جی سر پورے ملک میں حلقہ بندیاں ہوتی ہیں جب نئی مردم شماری ہو۔ ہمیں حلقہ بندیوں کیلئے 4ماہ چاہئیں۔فاٹا انضمام کے بعد سیٹیں کم ہوگئی ہیں۔پورے ملک میں حلقہ بندیوں میں تبدیلی آئے گی۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن ڈیوٹی ادا کرنے کیلئے تیار ہے۔آپس میں مشورہ کیا ہے۔ متفقہ فیصلہ ہے۔ جب بھی ضرورت ہو الیکشن کمیشن آئینی ذمہ داری پوری کرے۔

فیصلے کے تناظر میں سپریم کورٹ کی اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی کو انتہائی سخت کیا گیا، کمرہ عدالت میں مخصوص افراد کے علاوہ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کا مختصر فیصلہ سنایا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ  چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے وکلاء نے دلائل مکمل کیے۔ لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل شامل تھے۔

فیصلہ محفوظ کرنے سے قبل چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاست میں سب کا احترام ہے لیکن خدا قسم قوم قیادت کے لیے ترس رہی ہے، ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے اور وہ یہ کہ اسپیکر رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا، اسمبلی بحال ہوگی تو بھی ملک میں استحکام نہیں ہوگا لیکن ملک کو استحکام کی ضرورت ہے جبکہ اپوزیشن بھی استحکام کا کہتی ہے، قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے۔

 اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بھی کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا لیکن میرا مدعا نئے انتخابات ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا ہے، عدالت نے آئین کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں اور ہم نتائج پر نہیں جائیں گے۔

عدالت میں بلاول بھٹو بھی پیش ہوئے اور کہا کہ اپنے لیے حکومت بنانا ہماری ترجیح نہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی ہے اور اسی غیر قانونی رولنگ نے وزیراعظم کی جمہوریت پر سوال اٹھایا، ہم حکومت بناکر اتنخابی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا انتخابی اصلاحات کی تجویز ٹیبل ہوئی؟ کیا انتخابی اصلاحات کے لیے کوئی بل جمع کروایا ہے؟ ہمیں پتا ہے آپ کے خاندان نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں، آپ کی سینیٹ میں جو انتخابی اصلاحات کی تجاویز ہیں وہ منگوا لیں۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو آپ کا شکریہ کہ آپ نے بہت زبردست بات کی اور آپ واحد ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ہمیں آئین پر سختی سے عمل کرتے ہوئے فیصلہ جاری کرنے دیں، فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا، ہمیں معلوم ہے کہ بلاول بھٹو کی تین نسلوں نے جمہوریت کی بقا کے لیے قربانی دی ہے۔

عدالت عظمیٰ میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی اور اسپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں کمزور نہیں بلکہ مضبوط حکومت چاہیے۔

شہباز شریف نے کہا کہ اگر عدالت اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتی ہے تو نتیجتاً وزیر اعظم کے اقدامات ختم ہو جائیں گے اور اس کے نتیجے میں ختم کی گئی اسمبلی بحال ہوجائے گی، آئین کو جیسے توڑا گیا اور معطل کیا گیا وہاں نتائج بھی ہوں گے۔ عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کو عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔

 اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی اور ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کے لیے اپنا خون پسینہ بہائیں گے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟ شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی، شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کتنا دورانیہ رہے گا؟ شہباز شریف نے بتایا کہ ڈیڑھ سال پارلیمنٹ کا ابھی باقی ہے، اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کریں گے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے۔

Muhammad Zeeshan

Senior Copy Editor