استعفوں کی منظوری کا کیس، پی ٹی آئی پارلیمنٹ جا کرنیک نیتی ثابت کرے: عدالت

استعفوں کی منظوری کا کیس، پی ٹی آئی پارلیمنٹ جا کرنیک نیتی ثابت کرے: عدالت
کیپشن: chief justice athar minallah
سورس: Google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ویب ڈیسک: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے استعفوں کا معاملہ سیاسی تنازع ہے جو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، صرف سیاست چمکانے کے لیے درخواست پر حکم جاری نہیں کر سکتے، پی ٹی آئی پارلیمنٹ جا کر اپنی نیک نیتی ثابت کرے۔

تحریک انصاف کے 10 ارکان قومی اسمبلی کی جانب سے آئینی طریقے کے بغیر استعفے منظور کیے جانے کے خلاف درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔

پٹیشنرز کی جانب سے وکیل علی ظفر نے عدالت میں پیش ہوکر دلائل دیے کہ آرٹیکل 64 کے تحت پراسس کومکمل نہیں کیا گیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ پہلے یہ بتائیں پارٹی کی پالیسی کے خلاف ہیں، کیا پارٹی نے ان کے خلاف ایکشن لیا، اس پٹیشن کا مقصد کیا ہے ؟ کیا یہ پارٹی پالیسی ہے ؟ پہلے یہ پٹیشنرز اپنی نیک نیتی ثابت کریں، پارلیمنٹ کے معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرتی۔

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنرز پارٹی پالیسی کے ساتھ ہیں، اس کے خلاف نہیں، جس پر عدالت نے سوال کیا کہ تو پھر یہ کیوں وہاں جانا چاہتے ہیں؟ پچھلی پٹیشن اس سے مختلف تھی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ سیاسی معاملات ہیں اور ان کے حل کا فورم پارلیمنٹ ہے۔ یہ مطمئن کریں کہ یہ 10 ارکان پارلیمنٹ میں جانا چاہتے ہیں، اگر یہ کیس ہے تو پھر ٹھیک ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سیاسی تنازعات ہیں، سیاسی جھگڑے دور کرنے کی جگہ پارلیمنٹ ہے، آپ کو ان مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنے چاہئیں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ مستعفی ارکان واقعی پارلیمنٹ میں جا کر عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں؟ اس کیس میں پٹیشنرز کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے جینوئن استعفے جمع کروائے، یہ سپیکر کے پاس واپس جانے کا نہیں بلکہ صرف ٹیکنیکل ایشو ہے۔

وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ پٹیشنرز نے اپنی مرضی سے جینوئن استعفے دیے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت سپیکر قومی اسمبلی کو ہدایات جاری نہیں کر سکتی، عدالت نے شکور شاد کیس میں بھی صرف نظرثانی کا کہا ہے، وکیل نے بتایا کہ آڈیو لیکس آئی ہیں کہ سپیکر دوسری پارٹی ممبران کے ساتھ اس سے متعلق بات کر رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں ابھی ایم این ہیں کیونکہ ہم نے 123 استعفے دیے تھے جو اکٹھے منظور نہیں کیے گئے۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے استعفے مشروط تھے اگر وہ اکٹھے تسلیم نہیں کیے گئے تو پھر ہم ایم این اے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ جن کے استعفے منظور نہیں ہوئے ان کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، کیا آپ کا مؤقف ہے کہ پارٹی نے استعفے دینے پر مجبور کیا تھا؟ اگر ایسا ہے پھر تو آپ اب پارٹی پالیسی کے خلاف جا رہے ہیں، وکیل نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف یہ ارکان نہیں جا رہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ سپیکر نے اپنا آئینی فریضہ نہیں نبھایا، کُل 123 ارکان نے استعفے دیے تھے سب کو منظور ہونا چاہیے تھا، آڈیو لیک میں سامنے آچکا کہ کیسے صرف 11 ارکان کے استعفے منظور کیے گئے، ہم نے مشروط استعفے دیے تھے، ہمارا سیاسی مقصد تمام 123 نشستیں خالی کرنا تھا، اگر ہمارا وہ مقصد پورا نہیں ہوا تو ہم سمجھتے ہیں ابھی سب ایم این اے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف آپ پارلیمنٹ کو مانتے نہیں دوسری طرف آپ کہتے ہیں ایک Formality کرنا چاہتے ہیں، وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ بعد میں ہوگا، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت پارلیمنٹ کے وقار کو نیچا دکھانے کی اجازت نہیں دے گی، اگر یہ پٹیشنرز پارٹی پالیسی کے خلاف ہیں تو یہ بیان حلفی جمع کرائیں پھر عدالت ان کی پٹیشنز کو دیکھے گی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالتیں 70 سال میں سیاسی معاملات میں بہت زیادہ ملوث رہی ہیں جس کا اس ادارے کو نقصان بھی ہوا، اگر آپ پارٹی پالیسی کے ساتھ جا رہے ہیں تو عدالت اس درخواست کو Entertain نہیں کرے گی، اگر تو آپ پارلیمنٹ واپس جانے کے لیے آئے ہیں تو پھر عدالت یہ کیس سنے گی، ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں ان کے استعفے جینوئن تھے تو پھر کیس غیر متعلقہ ہوجاتا ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ اس وقت میں ان سوالات کے جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں، ان 10 ارکان کو ڈی نوٹیفائی کیا جا چکا ہے، ایک بار رکنیت بحال ہو پھر واپسی کے سوال پر جواب دے سکتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ کو جو عزت ملنی چاہیے وہ 70 سال میں نہیں دی گئی، اس ملک کے عوام نے انہیں پارلیمنٹ میں بھیجا ہے، سیاسی معاملات کا حل پارلیمنٹ ہی میں ہے، ارکان خود مانتے ہیں کہ استعفے جینوئن تھے۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ارکان اسمبلی کے استعفے جینوئن مگر مشروط تھے۔ ہم کہتے ہیں کہ تمام استعفے جینوئن تھے اور انہیں منظور کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ پٹیشنرز کلین ہینڈز کے ساتھ عدالت آئے یا نہیں؟۔ جب تک پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور نہیں ہوتے، ان کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے۔ارکان اسمبلی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں یا نہیں؟ یہ تو پی ٹی آئی کے رویے میں تضاد ہے۔ 11 لوگ نہیں پہلے باقی تو پارلیمنٹ چلے جائیں، سیاسی معاملات وہاں حل کریں ۔ سیاسی جماعت اپنے کنڈکٹ سے ثابت تو کرے ۔

وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ اگر ان پٹیشنرز کے استعفے واپس ہو جائیں تو پارٹی پارلیمنٹ جانے سے متعلق پارٹی دیکھے گی۔ جب تک پٹیشنرز کے نوٹیفیکیشن معطل نہیں ہوں گے، تو یہ کیسے اسپیکر کے پاس جا سکتے ہیں ۔ اگر آپ نوٹیفکیشن معطل کر دیتے ہیں تو ہم اسپیکر کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، بات کر سکتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک طرف کہہ کر رہے ہیں پارلیمنٹ نہیں مانتے اور اس وجہ سے ملک میں سیاسی غیر یقینی صورتحال ہے ۔ یہ عدالت آپ کے سیاسی ڈائیلاگ میں سہولت کاری نہیں کرے گی۔ کل تک وقت دے دیتے ہیں آپ نیک نیتی ثابت کریں، پارلیمنٹ جائیں، ہم پٹیشن سن لیں گے ۔ اس عدالت کے مدنظر سیاسی جماعت کا مکمل احترام ہے، یہ منتخب نمائندے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ جائیں، سیاسی عدم استحکام ختم کریں اور پارلیمنٹ کو احترام دیں ۔ اس ملک کا سب سے بڑا فورم پارلیمنٹ ہے، وہاں جا کر اپنے سیاسی معاملات حل کریں ۔ آپ پارلیمنٹ جا کر اپنی نیک نیتی ثابت کریں۔سیاسی جھگڑوں کو عدالت نہیں، پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔

بعد ازاں پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے آدھے گھنٹے کی مہلت طلب کرتے ہوئے کہا کہ پٹیشنرز سے بات کر لیتا ہوں پھر بتاتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ ایک گھنٹہ لے لیں اور بتائیں، عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا۔