(قیصر کھوکھر) پنجاب میں اس وقت پولیس اصلاحات کا شور برپا ہے اور بیوروکریسی اصلاحات کی آڑ میں پولیس پر کنٹرول چاہتی ہے جو کہ قانون کے تحت ممکن نہیں ہے، ڈی ایم جی گروپ نے پبلک کمپلینٹ اتھارٹی کی آڑ میں پولیس پر کنٹرول کی کوشش کی ہے اور مسودہ تیار کیا ہے کہ یہ اتھارٹی ڈی سی کے ماتحت کام کرے گی اور پولیس کوجوابدہ ہونا ہوگا دوسرا ڈی سی کے انڈر پولیس انسپکشن اوراحتساب سیل بنانے کی تجویز تیار کی ہے جسے پولیس نے مسترد کر دیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ادارے پہلے سے ہی پولیس میں موجود ہیں ان کی نئے سرے سے ضرورت نہیں ہے اور پولیس آر پی او اور آئی جی آفس کے ماتحت ہے جس پر یہ شعبہ جات کام کر رہے ہیں۔ اس وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا عہدہ ختم ہو چکا ہے اور اسے دوبارہ بحال کرنا قانونی طور پر ممکن نہیں ہے۔ پنجاب بیوروکریسی نے پولیس اصلاحات کا مسودہ وزیر اعظم عمران خان کو پیش کر دیا ہے ۔ بیوروکریسی ابھی تک پولیس کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے اور پولیس والے بھی اپنے کام سے آشنا نہیں ہیں۔ سول بیوروکریسی کے ماتحت اداروں کو کنٹرول کرنے کے لئے انہیں پولیس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
سول بیوروکریسی اپنے طور پر ایک ریڑھی کو بھی نہیں ہٹا سکتی ہے بڑی تجاوزات کاخاتمہ تو دور کی بات ہے۔ سپیشل قوانین پر عمل درآمد کے لئے بھی سول بیوروکریسی کو پولیس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور پولیس اکثر اوقات یہ مدد فراہم نہیں کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایم ایم عالم روڈ پر ایک ریسٹورنٹ پر چھاپہ کے لئے محکمہ ایکسائز کو پولیس نے مدد فراہم نہیں کی تھی جس پر حکومت پنجاب نے اے ایس پی گلبرگ عبدالوہاب کی خدمات پنجاب سے سرنڈر کر دی تھیں۔ پولیس والے تو آئی جی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی من مانی کرتے ہیں۔ پولیس میں اس حد تک سیاسی اثرورسوخ بڑھ گیا ہے کہ پولیس افسران اپنے سیاسی آقاﺅں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اور اپنے افسران کے احکامات بھی ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ آئی جی آفس میں ایک مکمل سیکرٹریٹ قائم ہے جس میں افسران کی ایک فوج موجود ہے جو سارا دن خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں یا اپنے ذاتی کام کاج کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کئی پولیس افسران اس وقت قبضہ مافیا میں بھی ملوث پائے گئے ہیں اور زمینوں اور پلاٹوں کی خریدو فروخت بھی کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ایس پی رینک کے پولیس افسران رات کو بھی گشت کیا کرتے تھے اور جہاں کہیں سنگین نوعیت کی واردات ہوتی تھی وہاں خود معائنہ کرتے تھے لیکن آج کل ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے اور پولیس افسران دفاتر تک محدود ہو گئے ہیں۔ کرائم بڑھنے کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتا ہے۔ تھانوں اور سرکاری گاڑیوں کا خرچہ سائلین سے پورا کیا جاتا ہے اور ایس ایچ او کے پاس سرکاری گاڑی میں پٹرول ڈالنے کے لئے پیسے تک نہیں ہوتے ہیں اور یہ تمام خرچہ تھانے میں آئے سائلین سے پورا کیا جاتا ہے۔
ڈی ایم جی گروپ تمام محکموں پر اپنا کنٹرول رکھتا ہے اور وہ پولیس پر اپنا سابق کنٹرول بحال کرنے کی پہلے بھی کئی بار کوشش کر چکا ہے اور اس بار بھی کوشش کی گئی ہے لیکن تاحال کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ ڈی ایم جی گروپ کا پلان ہے کہ ضلع کے ڈی سی، کمشنر اور ہوم سیکرٹری کو اتنا مضبوط کیا جائے کہ ڈی پی او سے لے کر آئی جی تک انہیں سلیوٹ کریں اور ڈی ایم جی افسران پولیس افسران کی اے سی آر لکھیں اور ضلع میں پولیس ڈی سی کے ماتحت ہو اور ڈی ایم جی گروپ کے رعب اور دبدبے میں اضافہ ہو ۔ لیکن پولیس یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہے پولیس افسران کا کہنا ہے کہ وہ وقت گئے جب سی ایس ایس میںٹاپ کرنے والے ڈی ایم جی گروپ کا چوائس کرتے تھے اب تو سی ایس ایس ٹاپ کرنے والے امیدوار پولیس کو بھی پہلے چوائس دے رہے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈی ایم جی گروپ سے پٹواری کلچر کا تو خاتمہ نہیں ہو رہا ہے وہ پولیس پر کیا کنٹرول کریں گے۔
اس وقت پنجاب میں انجینئرنگ کے تین محکمہ جات ہیں جن کا انتظامی کنٹرول ڈی ایم جی افسران کے ہاتھ میں ہے ان میں محکمہ آبپاشی، محکمہ ہاﺅسنگ اور محکمہ سی اینڈ ڈبلیو شامل ہیں اور محکمہ ہیلتھ کے دو محکمہ جات محکمہ پرائمری ہیلتھکیئر اور محکمہ سپیشلائز ہیلتھ کیئر ہیں جن کے سیکرٹری بھی ڈی ایم جی افسران ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ڈاکٹروں کے محکمہ کا سیکرٹری کوئی ڈاکٹر ہو اور انجنیئروں کے محکموں کا سربراہ کوئی انجینئر ہو لیکن وہاں پر بھی ڈی ایم جی گروپ چھایا ہوا ہے اور اس طرح پولیس والوں کا مطالبہ ہے کہ محکمہ داخلہ اور وزارت داخلہ کیونکہ پولیس اور سیکورٹی اداروں سے متعلقہ محکمے ہیں لہٰذا ان محکموں کا سربراہ بھی کسی پولیس افسر کو لگایا جائے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں اور کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کریں۔ پولیس پولیس والا کام کرے اور سول بیوروکریسی اپنا کام کرے اور ضلع کی سطح پر اپنا کنٹرول دیگر سول انتظامیہ پر مضبوط کرے اور رولز کے تحت جو ڈی سی کے اختیارات لکھے ہیں ان پر عمل کیا جائے۔ پولیس کو انڈیا ، بنگلہ دیش اور ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر خود مختار بنایا جائے اور نو آباد کاری والا انگریز کا بنایا ہوا فرسودہ نظام ختم کیا جائے ۔ پولیس اور سول بیوروکریسی کی حالیہ کشمکش میں چیف سیکرٹری پنجاب یوسف نسیم کھوکھر اور پرنسپل سیکرٹری تو وزیر اعلیٰ ڈاکٹر شعیب اکبر کا کردار انتہائی مثبت رہا ہے۔
دونوں نے اس سرد جنگ میں پل کا کام کیا ہے اور معاملات کو سلجھایا ہے تاکہ بحران حل ہو۔ پرنسپل سیکرٹری تو وزیر اعلیٰ ڈاکٹر شعیب اکبر صبح آٹھ بجے سے لے کر رات گئے تک ایوان وزیر اعلیٰ میں کام کرتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں وزیراعلیٰ پسند کرتے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بات نہیں سنتے ہیں۔ ڈاکٹر شعیب اکبر ایوان وزیر اعلیٰ کی ڈاک کو روزانہ کی بنیاد پر نمٹاتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ افسر شاہی میں معاملات بہتر طور پر نمٹا رہے ہیں۔