ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سینیٹ الیکشن اور افواہیں

سینیٹ الیکشن اور افواہیں
کیپشن: City42 - Ali Akbar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(علی اکبر) ایک طویل مدت تک یہ شور سننے کو ملا کہ کوئی طاقت سینیٹ کا الیکشن روکنے کیلئے سازشیں کر رہی ہے لیکن بالآخر3 مارچ کو ہونے والے الیکشن نے ان الزامات کو غلط ثابت کر دیا۔ اب ان الیکشن کے کیا نتائج رہے ہیں یہ کوئی ان ہونی بات نہیں ہے کیونکہ سیاست میں ہر سیاسی جماعت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی اپنی سیاسی چال چلے اور اس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب اس کی سیاسی چال کامیاب رہے یا اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑے ۔دونوں ہی صورتوں میں نتائج پوری قوم کے سامنے ہوتے ہیں۔اس لیے یہ الگ بحث ہے کہ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے کیا چال چلی اور تحریک انصاف کیا کر سکی۔

ایک عدالتی فیصلے کے بعد ن لیگ کے امیدوارآزاد حیثیت سے سینٹ کے ممبر منتخب ہوئے ۔اب کامیاب ہونے والے آزاد سنیٹروں نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔یہ ان کا اپنا فیصلہ ہو گیا لیکن یقیناًوہ سب ن لیگ میں شامل ہوں گے کیونکہ ن لیگ کے حمایت یافتہ سنیٹر ان کے مخلص کارکن ہیں جو نواز شریف کے جانثار ہیں۔ پنجاب سے سینٹ کے الیکشن کے حوالے سے یہ بات زبان زد عام تھی کہ اپوزیشن ایک سیٹ پر کامیاب ہو سکتی ہے۔اس لیے چودھری سرور کا کامیاب ہونا کوئی اپ سیٹ نہیں۔ ہاں البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کے متحد نہ ہونے کے باوجود چودھری سرور کے کامیاب ہونے سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ کیا ہارس ٹریڈنگ ہوئی یا ارائیں برادری اپنا امیدوار کامیاب کروانے کیلئے متحد تھی۔ اپوزیشن کے متحد نہ ہونے کے باوجود چودھری سرور کا نمبر ون پر آنا حیران کن بات ہے۔

اس بار اپوزیشن واضح طور پرتقسیم تھی اور اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار چکی تھی۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کے اتحاد کی باتیں سننے کو ملیں اور یکم مارچ کو نہال ہاشمی کی نشست پر تحریک انصاف نے ق لیگ کی حمایت حاصل کی اور ان کے آٹھ ممبران کے ووٹ حاصل کر لیے۔ اگرچہ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر زرقا کامیاب نہ ہو سکیں اور ڈاکٹر اسد اشرف کو اللہ تعالیٰ نے کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ان الیکشن میں کوئی حیران کن بات اس لیے نہیں کیونکہ ماضی میں اسی اسمبلی سے آزاد امیدوار محسن خان لغاری بھی پیپلز پارٹی کے اسلم گل کو شکست دیکر سینٹ میں جا چکے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودھری سرور جنہوں نے 44 ووٹ حاصل کیے ہیں ان کو ووٹ کس کس نے دیے۔ تحریک انصاف کو سینٹ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق نے تو ووٹ نہیں دیے۔ اب آسان سا سوال ہے جس کایقینی جواب بہت آسان ہے کہ جماعت اسلامی کا ایک ووٹ ،آزاد ممبر احسن ر یاض کا ایک ووٹ اور باقی ان کو ن لیگ کے ارکان نے ووٹ دیے۔ سیاست میں چالیں چلنا ہر کسی کا حق ہے ایسے ہی اگر چودھری سرور نے ن لیگ کے اراکین کے وو ٹ حاصل کئے ہیں تو یہ ان کی سیاسی چال تھی جس میں وہ کامیاب ہوئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہو گاکہ ن لیگ کے حمایت یافتہ زبیر گل کو شکست کا سامنا کس طرح کرنا پڑ گیا کیونکہ ن لیگ کی جانب سے امیدواروں کے اعتبار سے جس طرح گروپ تشکیل دیے گئے تھے۔ اس حساب سے رانا محمود الحسن سب سے زیادہ کمزور امیدوار تھے اور زبیر گل کے پاس مطلوبہ ووٹ پورے تھے۔

 ن لیگ کے حلقوں میں یہ بات چل رہی ہے کہ زبیر گل کو ایک خاص گروپ نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا جو پنجاب کی اعلیٰ قیادت کے قریب ترین گروپ ہے۔ اس سوال کا جواب قارئین کے لیے شاید مشکل ہو سکتا ہے لیکن خود ن لیگ والے بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا اور ان کا ووٹ رانا محمود الحسن کو کاسٹ ہوا ہے۔ لیکن ن لیگ کا المیہ یہ ہے کہ ان کے اندر ٹوٹ پھوٹ بہت ہے کیونکہ اگر اس ٹوٹ پھوٹ کو ٹھیک نہ کیا گیا تو عام انتخابات میں جماعت کو گروپ بندی کے نتیجہ میں نقصان ہونے کا خدشہ ہے۔