ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پنجاب کی بیوروکریسی میں گروپ بندی

پنجاب کی بیوروکریسی میں گروپ بندی
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

( قیصر کھوکھر) پنجاب کی بیوروکریسی آج کل ایک بار پھر گروپ بندی کا شکار ہے اور چھوٹی اور بڑی سطح پر افسران مختلف گروپوں میں منقسم ہیں۔ پنجاب میں تقرر و تبادلے بھی اس گروپ بندی کی بنیاد پر ہو رہے ہیں۔ ہر گروپ اپنے من پسند افسران کو بہتر تقرری دلوانے کیلئے کوشاں ہے۔ پنجاب میں تین بڑے گروپ کام کر رہے ہیں۔ان میں پہلا گروپ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک کا ہم خیال گروپ ہے دوسرا طاقتور ترین گروپ طاہر خورشید ( ٹی کے) گروپ ہے۔ جسے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار کی خصوصی آشیرباد حاصل ہے۔

ویسے تو ماضی میں بھی بیورو کریسی کے گروپ رہے ہیں، جن میں جاوید محمود گروپ جسے عرف عام میں ڈی ایم جی نون بھی کہا جاتا ہے اور ناصر محمود کھوسہ گروپ رہے ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک سابقہ چیف سیکرٹری جاوید محمود اور ناصر محمود کھوسہ کی طرح اتنے طاقتور تو نہیں لیکن بیورو کریسی میں ان کا ایک ہم خیال گروپ ضرور متحرک ہے۔

 جواد رفیق ملک گروپ میں سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ندیم محبوب، سیکرٹری وجیہ اللہ کنڈیم سیکرٹری آئی اینڈ سی احسان بھٹہ، سیکرٹری سروسز صائمہ سعید اور سیکرٹری لیبر ڈاکٹر احمد جاوید قاضی شامل ہیں۔ ڈاکٹر احمد جاوید قاضی کو کمشنر لاہور لگنے کیلئے چیف سیکرٹری کی مکمل آشیرباد حاصل تھی لیکن پھر کیپٹن (ر) عثمان کمشنر لاہور لگنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ندیم محبوب نے حالیہ کالج ٹیچرز کی پروموشن اور تعیناتی اور تبادلوں میں میرٹ کو اولین ترجیح دے کر ایوان وزیراعلیٰ اور اپنے ساتھی سیکرٹریوں کو ناراض کر لیا ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک ایک شریف النفس افسر ہیں اور وہ بہتر طور پر پنجاب میں افسر شاہی کے معاملات چلا رہے ہیں۔

  پنجاب میں افسر شاہی کو دوسرا گروپ طاہر خورشید ( ٹی کے) گروپ ہے۔ اس گروپ کو وزیراعلیٰ گروپ بھی کہا جاتا ہے۔ طاہر خورشید ایک منجھے ہوئے افسر ہیں۔ یہ وزیراعلیٰ کی انتہائی گڈ بکس میں ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جب بھی چیف سیکرٹری پنجاب کا تبادلہ ہوا اگلے چیف سیکرٹری پنجاب طاہر خورشید ہونگے۔ وزیراعلیٰ بیورو کریسی کے تمام معاملات پر طاہر خورشید سے ہی مشورہ اور رائے لیتے ہیں جب طاہر خورشید چیف سیکرٹری پنجاب لگے تو وہ پنجاب کے مضبوط ترین چیف سیکرٹری ہونگے۔ ٹی کے گروپ میں سیکرٹری انرجی محمد عامر جان، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ارم بخاری، ڈی جی ایکسائز صالحہ سعید، سیکرٹری ہائوسنگ ظفر نصراللہ، سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن وقاص علی محمود شامل ہیں جبکہ سیکرٹری بلدیات نورالامین مینگل نے بھی حالات کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر ٹی کے گروپ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ماضی میں نوالاامین مینگل ناصر محمود کھوسہ گروپ کا بھی حصہ رہے ہیں۔ 

بیورو کریسی کا تیسرا اہم ترین گروپ ڈی ایم جی نون گروپ ہے۔ اس گروپ میں وہ افسران شامل ہیں جو ماضی میں سابق وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کیساتھ کام کر چکے ہیں۔ ان میں چیئرمین پی اینڈ ڈی عبداللہ خان سنبل اور سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر نبیل احمد اعوان شامل ہیں۔ نبیل احمد اعوان ایک قابل اور محنتی افسر ہیں۔ انہوں نے محکمہ ہیلتھ کے معاملات بہتر طور پر آگے بڑھائے ہیں اگر اگلی حکومت مسلم لیگ نون کی پنجاب میں آئی تو عبداللہ خان سنبل اور نبیل احمد اعوان چیف سیکرٹری پنجاب کے مضبوط امیدوار ہونگے۔ 

پنجاب میں اے سی، تحصیلداران، ڈی ایس پی، کے تبادلے مقامی ایم این اے اور ایم پی اے کی سفارشات پر ہو رہے ہیں اور میرٹ پر آنیوالے گریڈ سترہ کے پی ایم ایس افسران محض اس وجہ سے سول سیکرٹریٹ میں سیکشن افسر ہیں کہ ان کے پاس سفارش نہیں۔ بہت سارے پی ایم ایس افسران بار بار اے سی لگ رہے ہیں اور ایک بڑی تعداد ابھی تک اے سی لگ ہی نہیں سکی۔ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک اور طاہر خورشید کی یہ اولین ترجیح ہونا چاہے کہ فیلڈ افسران کو میرٹ پر تعینات کریں۔ خاص طور پر تحصیل انتظامیہ ارکان اسمبلی کی سفارش کے بجائے میرٹ پر تعینات کی جائے اور دو سال سے قبل ان کے تبادلہ بھی نہ کیا جائے۔ یہ جو ارکان اسمبلی چند ماہ بعد ہی فیلڈ افسران کے تبادلے کرا دیتے ہیں، یہ روش تبدیل ہونی چاہئے۔ اس سے پی ٹی آئی کی ساکھ بہتر ہو گی اور ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوگا۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر