پاکستان اور بھارت میں باسمتی کی جنگ

پاکستان اور بھارت میں باسمتی کی جنگ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 ویب ڈیسک : بھارت ہمارا ہی چاول کا بیج استعمال کر کے پوری دنیا میں پاکستان کے باسمتی چاول  پر پابندی لگوانے پہنچا   مگر یورپی یونین میں کیس ہار چکا اب یورپی یونین کے قوانین کے مطابق دونوں ممالک نے اگلے تین مہینے یعنی ستمبر 2021 تک باہمی مشاورت سے معاملات کو طے کرنا ہے۔  حکومت نہ جاگی تو خدانخواستہ بھارت پاکستان چاول پر پابندی بھی لگوا سکتا ہے۔ پوری قوم '' باسمتی بچاؤ پاکستان بچاؤ'' مہم میں شامل ہوکر یہ ہدف حاصل کرسکتی ہے۔

باسمتی چاول پر پاک بھارت تنازع آخر ہے کیا؟

حافظ آباد چاول کی پیداوار کے اعتبارسے ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ یہاں کی پہچان  خوشبو اور ذائقہ  دار  چاول  کرنل باسمتی  ہے۔1960 میں حافظ آباد سے تعلق رکھنے والے کرنل مختار حسین نے باسمتی چاول کا نیا بیج  تیار  کیا تھا۔کرنل مختار نے یہ بیج اپنی مدد آپ کے تحت تیار کیا اس لیے اسے کرنل باسمتی  کا نام دیا۔  کرنل مختار حسین نے اپنی ایک رائس  مل  حافظ آباد میں لگائی جہاں پر صرف کرنل باسمتی تیار ہوتاہے۔

یہ کرنل باسمتی چاول   اپنے معیار اور خوشبو کے باعث نہایت  مقبول ہو گیا۔حافظ آباد کی زمین باسمتی چاول کی پیداوار کے حوالے سے  پہلے ہی مشہور تھی ۔ پھر  کرنل مختار حسین نے اس کو کرنل  باسمتی چاول کے باعث  دنیا بھر میں متعارف کرادیا۔

پاکستان اپنا برانڈ کرنل باسمتی  آج بھی دنیا بھر میں برآمد کر رہا ہے۔ مگر   بھارت پاکستانی چاول پر یورپ سمیت مشرق وسطیٰ میں  قبضہ جمانے کی مذموم کوشش کررہا ہے۔اس کا کہنا ہے کہ کرنل باسمتی چاول، پاکستان کا نہیں بھارت کا برانڈ ہے۔ باسمتی چاول کے بانی  کرنل مختار کے بیٹے فیصل نے انکشاف کیا ہے کہ انڈیا نے سنہ 2004 میں باسمتی چاول کے حقوق اپنے نام پر محفوظ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ ایسا کرنے میں ناکام رہا اور یورپی یونین نے پاکستان کے سپر باسمتی اور انڈیا کے پوسا باسمتی کو زیرو ٹیرف کا یکساں ٹریٹمنٹ دیا اور یہ بات یورپی یونین کی ریگولیشن میں درج ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ انڈیا کا جغرافیکل انڈیکیشن (جی آئی) کا حق اپنے نام محفوظ کرنے کا دعویٰ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ باسمتی کی پہلی ورائٹی کی دریافت کولو تارڑ حافظ آباد میں سنہ 1926 میں کی گئی جو پاکستان میں واقع ہے۔

 باسمتی چاول کی تاریخ 

پاکستان اور انڈیا میں باسمتی چاول کی تاریخ لگ بھگ دو سو سال پرانی ہے۔ پنجابی زبان کے معروف شاعر وارث شاہ کی شاعری میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے

 پاکستان اور انڈیا کو باسمتی چاول کے روایتی علاقے ورثے میں ملے۔ یہ چناب اور راوی کے درمیان کا علاقہ اور انڈیا میں ڈیرہ دون کا علاقہ ہے۔ 

باسمتی پر جنگ کی شروعات

 رابن اینڈروز نامی ایک برطانوی شہری نے امریکی ریاست ٹیکساس میں ’فارمز آف ٹیکساس‘ نامی کمپنی میں ملازمت شروع کر دی۔ یہ کمپنی 1990 میں رایس ٹیک انکارپوریشن بن گئی۔ یہ شخص ایک سو ملازمین پر مشتمل اس کمپنی کا سربراہ یا سی ای او بن گیارائس ٹیک سے وابستگی کے دوران اس شخص نے باسمتی اور ٹیکساس کے چاول کو ملا کر ’ٹیکسمتی‘ نامی چاول کے لمبے دانے کی ایک نئی قسم تیار کر ڈالی۔

رائس ٹیک نے ٹیکسمتی چاول کو ’ایلیفینٹ‘، ’ٹِلڈا‘ اور ’لال قلعہ‘ برانڈز کے ناموں سے بیچنا شروع کر دیا۔ جامنی رنگ کے بعض ڈبوں پر تاج محل کی تصویر بھی ہوتی تھی۔ یہ اتنا کامیاب رہا کہ سی ای او نے رائس ٹیک کو ’چاول کا سٹاربکس‘ قرار دیا تھا۔سنہ 1997 سے رائس ٹیک کا تنزل شروع ہو گیا۔ ہوا یہ کہ انھوں نے یو ایس پیٹنٹ اینڈ ٹریڈمارک آفس سے چاول کی اس دوغلی نسل کا پیٹنٹ یا اختراعی حق اپنے نام درج کروا لیا۔ انڈیا اور پاکستان نے اس کی مخالفت کی، جس کا نتیجہ انڈیا اور پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کے حق میں نکلا۔

مگر اس کےبعد  بھارت اور پاکستان  میں باسمتی کو اپنا برانڈ ثابت کرنے  کی جنگ شروع ہوئی کہ اصلی باسمتی پر ان کا حق ہے۔ اور یہ ہی سبب ہے کہ آج سنہ 2021 میں دونوں ہی باسمتی کا جی آئی ٹیگ اپنے نام کروانے پر جھگڑ رہے ہیں۔

جی آئی ٹیگ ہے کیا؟

  جی آئی سے مراد جیوگرافک اِنڈیکیشن ٹیگ (جغرافیائی اشاریہ کا نشان) ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کوئی چیز کہاں بنائی گئی ہے اور یہ کہ یہ صورت اور ذائقے میں اصلی ہے۔ مثلاً سؤٹزرلینڈ کا پنیر، فرانس کی وائن، کولمبیا کی کافی اور دارجلنگ کی چائے۔ یہ ایک طرح کا پیٹنٹ ہے۔

باسمتی انڈیا اور پاکستان کے لیے کیوں اہم ہے؟
 خلیجی ممالک بھارتی چاولوں کے سب سے بڑے خریدار ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں، ایران، سعودی عرب، عراق، متحدہ عرب امارات، کویت اور یمن نے انڈیا سے باسمتی کی زیادہ سے زیادہ خریداری کی ہے۔ انہی اعدادوشمار سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انڈیا کے اعلی پانچ درآمد کنندگان یعنی خلیجی ممالک میں انڈین باسمتی کا 70 فیصد حصہ خریدا جاتا ہے۔ جکہ پاکستان کا 40 فیصد باسمتی یورپ جاتا ہے اور باقی آسٹریلیا اور خلیجی ممالک کو برآمد ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق چاول کی بین الاقوامی برآمد سے بھارت کو سالانہ 6.8 بلین ڈالر حاصل ہوتے ہیں۔  بھارت 25 فیصد شیئر کے ساتھ دنیا کا سب سےبڑا چاول ایکسپورٹر ہے۔ جبکہ پاکستان اس مد میں سالانہ 2.2 بلین ڈالر کماتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق چاول کی برآمد میں پاکستان کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔

 بھارتی باسمتی بمقابلہ پاکستانی باسمتی 

 گذشتہ چند سالوں میں یورپ میں پاکستانی باسمتی کی کھپت میں اضافہ ہوا ہے جس کی بڑی وجہ جراثیم کش ادویات ہیں۔سنہ 2018 میں یورپی یونین نے فصلوں میں استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات کی مقدار میں تبدیلی کی تھی۔ لہذا یورپی یونین کے معیار کے مطابق انڈین باسمتی میں ٹرائیسائکلازول کی مقدار بہت زیادہ پائی گئی۔ اس دوا کا استعمال فنگس کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے باسمتی میں اس دوا کی مقدار کم تھی، لہذا یورپی ممالک نے پاکستان سے زیادہ باسمتی کی درآمد شروع کر دیا۔

Suhail Ahmad

Senior content editor