190 ملین پاؤنڈ یفرنس میں ملک ریاض سمیت  چھ شریک ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا گیا

Malik Riaz, Bahria Town, 190 million pound case, City42, NAB, NAB Reference, City42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ارشاد قریشی: 190 ملین پاؤنڈ یفرنس میں ملک ریاض سمیت  چھ شریک ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔

شریک ملزمان سے متعلق تفتیشی آفیسر نے عدالت میں بیان ریکارڈ کروایا۔  ریفرنس میں ملک ریاض سمیت  چھ شریک ملزمان کو اشتہاری قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کارروائی کو  190 ملین پاؤنڈز القادر ٹرسٹ ریفرنس میں بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔  ایک سو نوے ملین پاؤنڈ ریفرنس مین سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی بیوی بشریٰ بی بی کے ساتھ  شریک ملزموں میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض، اس کا بیٹا علی ریاض ملک، بشریٰ بی بی کی سہیلی فرحت شہزادی، عمران خان کے دستِ راست شہزاد اکبر ، سید ذوالفقار عباس بخاری عرف ذلفی بخاری اور مرزا شہزاد اکبر کا بیٹا ضیاء السلام نسیم شامل ہیں۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے توشہ خانہ ریفرنس اور 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل ریفرنس دونوں کیسز کی سماعت اڈیالہ جیل میں کی۔

ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی، پراسیکیوٹر عرفان احمد بھولا، سہیل عارف اور تفتیشی ٹیم جبکہ ملزمان کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ، شعیب شاہین، بیرسٹر عمیر نیازی اور دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔دوران سماعت پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر خان بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔

نیب کے تفتیشی افسر نے 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل ریفرنس میں 6 ملزمان کی جانب سے وارنٹ کی عدم تعمیل پر بیان ریکارڈ کرایا۔ عدالت نے فرح گوگی، مرزا شہزاد اکبر، ضیاء الاسلام نسیم اورذلفی بخاری سمیت 6 شریک ملزمان کو عدالتی مفرور قرار دے دیا۔

بانی پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانہ ریفرنس میں فرد جرم کی کاروائی سے قبل بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی ضمانت کی درخواستوں  کو سنا جائے۔

پراسیکیوشن کی جانب سے ضمانت کی درخواستوں پر فیصلے کی مخالفت کی گئی اور فرد جرم عائد کرنے کی کاروائی پر زور دیا گیا ۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ توشہ خانہ ریفرنس میں ملزموں کو نقول کی فراہمی کو 7 روز مکمل ہوچکے ہیں لہٰذا ملزمان پر فرد جرم عائد کی جائے۔

سماعت کل 8 جنوری تک ملتوی

وکلاء صفائی اور پراسیکیوشن کی باہمی مشاورت کے بعد عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں فرد جرم کی کاروائی  اور  190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل ریفرنس میں ملزمان کی ضمانت کی  درخواستوں کی سماعت کل 8 جنوری تک ملتوی کردی۔

سماعت کے دوران بانی پی ٹی آئی نے عدالت سے بیٹوں کے ساتھ ٹیلی فون پر  گفتگو کی استدعا کی جو عدالت نے منظور کرلی۔

190 ملین پاؤنڈ کیس کیا ہے

القادر ٹرسٹ کیس اور 190 ملین پاؤنڈ کیس کے نام سے مشہور اس کیس کی نیب میں انکوائری پندہ جولائی 2022  شروع کی گئی تھی۔ انکوائری کے بعد  20 اپریل 2023 کو اسے انویسٹی گیشن میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 2 دسمبر 2019 کو  ملزم نمبر 2مرز شہزاد اکبر نے ملزم نمبر 1عمران خان کو ایک نوٹ پیش کیا تھا جس کے مطابق انگلینڈ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ڈسٹرکٹ جج سے بزنس ٹائیکون ملک ریاض کی فیملی کے 8 اکاؤنٹ فریز کروانے کا آرڈر جاری کروایا۔ ان اکاؤنٹس میں 14 کروڑ پاؤنڈ کی رقم تھی۔ اس انجماد میں ہائیڈ پارک نمبر 1 پراپرٹی بھی شامل تھی جس کی مالیت 5 کروڑ پاؤنڈ تھی۔ یوں اس منجمد کی گئی رقم اور پراپرٹی کی مالیت 19 کروڑ پاؤنڈ بنتی تھی جسے پاکستانی کرنسی مین 190 ملین پاؤنڈ شمار کیا گیا۔ ہاؤسنگ سوسائٹی نے اس وقت کے وزیراعظم کو غیر قانونی فائدہ پہنچا یا جو  458  کنال مہنگی زمین کی شکل میں تھا۔ یہ زمین ملزم نمبر 5 ذوالفقار عباس بخاری کے زریعہ دی گئی۔

اس رشوت کو  چھپانے کے لئے عطیہ کی شکل دی گئی۔ یہ عطیہ ایک ایسے ٹرسٹ ( القادر یونیورسٹی ٹرسٹ) کو دیا گیا جس کا اس وقت کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ بعد میں یہ ٹرسٹ بنا تو اس کے مالک بانیملزم نمر 1 سابق وزیراعظم عمران خان تھے اور ملزم نمبر  6 بشریٰ عمران خان اس ٹرسٹ کی ٹرسٹی تھی۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ جس وقت ملزم نمبر 1 کو یہ فائدہ پہنچایا گیا اس وقت اس ٹرسٹ کا کوئی وجود نہین تھا جسے زمین ٹرانسفر کی گئی۔ یہ زمین دراصل براطانیہ مین پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض اور اس کی فیملی کی  منی لانڈرنگ کے ضمن میں ضبظ کی گئی اس 190 ملین پاؤنڈ کی رقم کو اسے غیر قانونی طور پر واپس کرنے کے عوض حاصل کی گئی۔ قانوناً برطانیہ میں ضبط کی جانے والی 190 ملین پاؤنڈ رقم ریاست پاکستان کو واپس منتقل ہونا تھی۔ لیکن حیرت انگیز  طریقہ سے ملزم نمر 3 پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض انگلینڈ سے واپس آئی 19 کروڑ پاؤنڈ رقم مین سے 17 کروڑ پاؤنڈ  رقم کا سب سے بڑا بینیفشری بن گیا۔ حالانکہ یہ رقم ریاست پاکستان کو ملنا تھی۔ 

نیب کے ریفرنس کے مطابق ملزم نمبر 3 ملک ریاض کو مالی فائدہ پہنچانے کے لئے جو فیصلہ ملزم نمبر 1 عمران خان نے کیا اس کی فیک بنیاد فراہم کرنے کے لئے ملزم نمبر 2 شہزاد اکبر نے ایک غلط اطلاع پر مبنی نوٹ  2 دسمبر 2019 کو عمران خان کو بھیجا  جس میں بتایا گیا کہ ریاست پاکستان کو بھیجے جانے والی رقم کو  ایک ( وجود نہ رکھنے والی) لائبلٹی میں ایڈجسٹ ہونا ہیں۔ اور پھر غلط بیانی کرتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا یک اکاؤنٹ  دراصل ریاست پاکستان کا ہی اکاؤنٹ ہے۔ اور پھر ملزم نمبر 1 سابق وزیراعظم عمران خان نے رولز آف بزنس 1973 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نوٹ کی منظوری دے دی۔ پھر 3 دسمبر 2019 کو  ملزم نمبر 1 عمران خان نے اس نوٹ کو عجلت میں کابینہ کے "اِن کیمرہ" اجلاس میں پیش کر کے اس کے پیراگراف نمبر 10  کی منظوری بھی لے لی۔ پھر کابینہ سے یہ فیصلہ بھی کروا لیا کہ اس جعلی معلومات پر مبنی نوٹ کو "سربمہر" کر دیا جائے۔

کابینہ میں اس سسنگین جعلسازی کو پیش کرنے سےپہلے ملزم نمبر 1 سابق وزیراعظم عمران خان اور ملزم نمبر 2 مرزا شہزاد اکبر  برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو 6 نومبر 2019 کو  اپنےدستخط کر کے " معاہدہ کو خفیہ رکھنے کا  معاہدہ" کر چکے تھے۔ یہ کام انہوں نے کابینہ سے نوٹ کی کی منظوری لینے سے ایک ماہ پہلے ہی کسی منظوری کے بغیر  کر دیا تھا۔برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو جعلسازی کر کے برطانیہ سے رقم کی ریاست پاکستان کو منتقلی کے لئے جو بینک اکاؤنٹ ریاست پاکستان کا بینک اکاؤنٹ بتا کر دیا گیا وہ اصل میں سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے نام پر بنا ایک اکاؤنٹ تھا جو سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ کے تحت پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے بھاری جرمانہ وصول کرنے کے لئے بنایا تھا۔ اس اکاؤنٹ میں جرمانہ کی رقم ملک ریاض کو جمع کروانا تھی جس اس نے کبھی جمع نہیں کروائی تاہم جب اسکی برطانیہ میں موجود رقم منی لانڈرنگ کی رقم قرار دے کر ضبط کرنے کے بعد پاکستان کی ریاست کو واپس بھیجی گئی تو وزیراعظم عمران خان اور شہزاد اکبر  نے دیگر ملزمان کی مدد سے جعلسازی کر کے اس رقم کی منتقلی کے لئے ملک ریاض کا جرمانہ ادا کرنے کے لئے بنا ہوا اکاأنٹ نمبر ہی برطانیہ کو بھیج دیا۔ اس طرح 190 ملین پاؤنڈ کی رقم حکومت پاکستان یا ریاست پاکستان  کو ملنے کی بجائے پراپرٹی ٹائیکون کے جرمانہ کی ادائیگی میں کھپا دی گئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اپنی نوعیت کے منفرد فیصلہ کے تحت 4 مئی 2018 کو پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خلاف تمام مقدمات ختم کرنے کے عوض ملک ریاض سے سودے بازی کر کے اس کو 460 ارب روپے جرمانہ عائد کر دیا تھا اور اس کی غیر قانونی طور پر حاصل کردہ سرکاری زمین  پر اس کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا تھا۔ جرمانہ کی رقم غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی سرکاری زمین کی اصل مالیت کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھی لیکن پراپرٹی ٹائیکون ملزم نمبر  3 ملک ریاض نے کبھی یہ جرمانہ ادا نہیں کیا۔

بعد ازاں جب ملک ریاض انگلینڈ میں پھنس گیا اور منی لانڈرنگ قرار دی گئی بھاری رقم سے محروم ہو گیا تو ریاست پاکستان اور برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی کو صریحاً دھوکا دیتے ہوئے یہ رقم سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی۔ اس وقت کے وزیراعظم نے اس کام کی قیمت 458  کنال قیمتی زمین کی صورت میں حاصل کی جو ایسے ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی گئی جس کا اس وقت کوئی وجود نہیں تھا اور جب یہ ٹرسٹ بنا تو اس کا مکمل کنٹرول سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس تھا۔ پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض نے جو زمین سابق وزیراعظم عمران خان کو دی وہ اپریل 2019 میں خریدی اور اسے زلفی بخاری کے نام پر ٹرانسفر کر دیا جس نے بعد میں اسے عمران خان کے ٹرسٹ کے نام منتقل کر دیا۔ ملزم نمبر 3 ملک ریاض نے صرف 458 کنال زمین ہی نہیں دی بلکہ 28 کروڑ روپےسے عمران خان کے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے لئے بلڈنگ بھی بنا کر دی۔

  نیب کی تحقیقات سےواضح ہوا کہ ملک ریاض نے زمین اور بھاری رقم سابق وزیراعظم عمران خان کو 17 کروڑ پاؤنڈ کا بھاری فائدہ پہنچانے کے عوض رشوت کے طور پر دی تھی۔  برطانیہ سے پاکستان کی ریاست کو آنے والے پیسے غیر قانونی طور پر غیر متعلقہ اکاأنٹ میں منتقل کرنے کے لئے مجرمانہ جعلسازی میں بنیادی کردار ملزم نمبر 1 اور ملزم نمبر دو نے ادا کیا۔ انہوں نے کابینہ کو بھی گمراہ کیا، اسےرازداری کے معاہدہ ، رقم کے پہلے ہی برطانیہ سے غیر ریاستی اکاؤنٹ میں منتقل ہو جانے کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔

نیب تفتیش میں یہ سامنے آیا کہ کابینہ کے جن ارکان نے اس معاملہ پر بحث کرنا چاہی انہیں ملزم عمران خان نے روکا اور بحث  کی اجازت نہیں دی۔  190 ملین پاؤنڈ کے ملزم نمبر 3 کی اس خدمت کے عوض ملزم نمبر 1 سابق وزیراعظم عمران خان کو صرف القادر ٹرسٹ کے نام پر 458 کنال زمین اور 285 ملین روپے رقم ہی نہیں ملی بلکہ ملزم ملک ریاض نے اسے ملزمہ نمبر 8 فرحت شہزادی کے زریعہ اسلام آباد کے موضع موہڑہ نور میں 240 کنال زمین بھی حاسل کی۔

نیب اس کرپشن سکینڈل کی تحقیقات کر کے ریفرنس اسلام آباد کی احتساب عدالت میں فائل کر چکی ہے۔ ملزم عمران خان اس ریفرنس مین گرفتار ہین اور ان سے اڈیالہ جیل میں تفتیش مکمل ہو چکی ہے تاہم  چھ شریک ملزمان اب تک گرفتار نہیں ہوئے جنہیں اب اشتہاری ملزم قرار دیا گیا ہے۔ ایک ملزمہ بشریٰ بی بی عبوری ضمانت پر ہیں۔