جنوبی پنجاب کا منی سول سیکرٹریٹ

جنوبی پنجاب کا منی سول سیکرٹریٹ
کیپشن: City42- Qaiser Khokhar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر) جنوبی پنجاب کوایک الگ صوبہ بنائے جانے کے اعلان کے بعد اب جنوبی پنجاب کا منی سول سیکرٹریٹ بنانے کا عمل مزید الجھن اور اختلاف کا شکار ہو کر رہ گیا ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت کے گلے کی ہڈی بن کر رہ گیا ہے۔

جنوبی پنجاب کو ایک الگ صوبہ بنانے کا عمل پہلے ہی رک چکا ہے کیونکہ بہاولپور سے ایم این اے طارق بشیر چیمہ نے مطالبہ کیا ہے کہ بہاولپور ڈویژن کو جنوبی پنجاب کے صوبہ میں شامل نہ کیا جائے بلکہ بہاولپور ڈویژن کو ایک الگ سے صوبے کا درجہ دیا جائے کیونکہ حکومت پاکستان نے جب ون یونٹ بنایا تھا تو اس وقت بہاولپور جو کہ اس وقت ایک الگ صوبہ تھا، کاوعدہ کیا تھا کہ جب ون یونٹ توڑا جائے گا تو بہاولپور کو ایک الگ سے صوبے کا درجہ دیا جائے گا، لیکن ون یونٹ توڑتے وقت بہاولپور کو دوبارہ صوبہ بنانے کی بجائے صوبہ پنجاب میں شامل کر دیا گیا ۔

 اب صوبہ جنوبی پنجاب کے بعد پنجاب میں اس سے قبل منی سول سیکرٹریٹ بنانے کی شروعا2ت ہو چکی ہیں اور اس کے لیے کمیٹیاں بھی قائم کر دی گئی ہیں جنہوں نے کافی حد تک ہوم ورک مکمل بھی کر لیا ہے ۔ اب اس بات پر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں کہ جنوبی پنجاب منی سول سیکرٹریٹ کا ہیڈ کوارٹر کہاں پر ہو۔ کچھ لوگ اس ہیڈکوارٹرز کےلئے ملتان اور جہانگیر ترین نے اس ہیڈکوارٹر کے لیے لودھراں کا نام دیا ہے، لیکن ڈی جی خان کے بلوچ قبیلے اس منی سول سیکرٹریٹ کے لئے مظفر گڑھ کو بطور ہیڈ کوارٹرز نام دے رہے ہیں۔ بہاولپور ڈویژن نے تو واضح طور پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ جنوبی پنجاب صوبے کا حصہ نہیں بننا چاہتے بلکہ ان کےلئے بہاولپور کو الگ سے ایک صوبہ بنایا جائے اگر ایسا ممکن نہیں تو انہیں صوبہ پنجاب میں ہی رہنے دیا جائے۔ اس طرح ملتان اور ڈی جی خان دو ڈویژن باقی بچتے ہیں جن پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ بنایا جائے گا۔

اس طرح پی ٹی آئی کی قیادت از خود جنوبی پنجاب صوبہ بنانے پر اختلافات کا شکار ہو کر رہ گئی ہے اور کئی ایک کی یہ بھی رائے ہے کہ جنوبی پنجاب کو الگ سے صوبہ نہ ہی بنایا جائے تو بہتر ہے، سب قیادت کا منی سول سیکرٹریٹ ہیڈ کوارٹر پر متفق ہونا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ یہ ساری ایک سیاسی گیم ہے اور حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔ حکومت وقت کو اس وقت فوری طور پر ڈاکٹروں ، کالج و سکول ٹیچرز، انجینئرز کا ڈویژن کی سطح پر سروس کیڈر بنانا چاہیے اور پنجاب کی سطح کی سنیارٹی لسٹ توڑ دی جائے اور یہ سنیارٹی لسٹ ڈویژن کی سطح پر بنا دی جائے اس سے بہت سارے مسائل از خود حل ہو جائیں گے کیونکہ پنجاب سول سیکرٹریٹ کو کرپٹ اور روزی روٹی یہی جنوبہ پنجاب سے آنے والے ٹیچرز اور ڈاکٹرز چلاتے ہیں اور اس طرح کالج و سکول ٹیچرز اورڈاکٹرز کی ترقی کا عمل بھی تیز ہو سکے گا اور ڈاکٹرز اور کالج و سکول ٹیچرز کو ایک نیا سروس سٹرکچر دیا جائے اور ان کی پروموشن اگلے ڈویژن کی سطح پر کی جائے اور اس طرح سنیارٹی ڈویژن کی سطح پر کرنے سے جنوبی پنجاب کے ٹیچرز اور ڈاکٹرز کے مسائل بھی حل ہو سکیں گے اور ان کی ترقی کا عمل بھی تیز ہو سکے گا اور جنوبی پنجاب منی سول سیکرٹریٹ بنانے کا مطالبہ بھی کمزور ہو سکے گا۔

کیونکہ ابتدائی طور پر پی ٹی آئی کی حکومت نے جنوبی پنجاب کا جو خاکہ تیار کیا ہے، اس میں ایڈیشنل سیکرٹری اور سپیشل سیکرٹری رینک کے افسران کو جنوبی پنجاب منی سول سیکرٹریٹ میں تعینات کیا جائے گا جس سے مسائل حل ہونے کے بجائے جوں کے توں رہیں گے، کیونکہ چیف سیکرٹری اور محکموں کے سیکرٹری تو لاہور میں ہی بیٹھیں گے اور گریڈ17 سے اوپر گریڈ20تک کی ترقی کا فیصلہ لاہور سول سیکرٹریٹ سے ہی ہوگا اور اس طرح کام کروانے کے ریٹ بڑھ جائیں گے، پہلے جنوبی پنجاب کے ڈاکٹروں اور ٹیچرز کو جنوبی پنجاب منی سیکرٹریٹ جانا پڑے گا پھر انہیں لاہور آنا پڑے گا اور اس طرح فائل کو پہیے لگانے کے لئے مزید تگ و دو کرنا پڑے گی۔

 یہ فنی پیچیدگیاں اورقانونی نکتے نئے صوبے کے قیام میں بڑی رکاوٹ ہیں جن کے باعث حکومت کو بھی پریشانی کا سامنا ہے جبکہ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جنوبی پنجاب کے سیاستدان خود صوبے کے قیام میں مخلص نہیں،ا لیکشن سے قبل انہوں نے ”صوبہ کارڈ“ کھیل کر ووٹ تو حاصل کرلیے ہیں مگرصوبے کے قیام میں سنجیدگی نہیں دکھارہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے کے قیام میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ علاقوں کی تقسیم بھی ایک اہم فیکٹر ہے جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ پہلے حکومت متعلقہ علاقوں کے ارکان اسمبلی کو ایک اجلاس میں جمع کرے، وہاں اجلاس میں ان سے رائے لی جائے تواس کے بعد بیورو کریسی کے اعلیٰ افسران کا اجلاس بلا کران سے تجاویز لی جائیں، دونوں طرف سے تجاویزملنے کے بعد ایک کمیٹی ان کا تفصیلی جائزہ لے اور اس کے بعد صوبے کے قیام کاا علان کیا جائے۔

جنوبی پنجاب والے جھنگ کو بھی ”صوبہ جنوبی پنجاب“ میں شامل کرتے ہیں جبکہ جھنگ کے عوام کی اکثریت جنوبی پنجاب کے بجائے وسطی پنجاب کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس حوالے سے جھنگ کے منتخب نمائندوں سے کسی بھی فیصلے سے قبل رائے لینا ضروری ہے۔ صوبہ جنوبی پنجاب کا ایشو اتنا آسان نہیں جتنا حکومت سمجھتی تھی، اس لئے اس کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی غوروخوض کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے تاکہ کسی کی حق تلفی نہ ہواورانتظامی امور بھی بہتر اندازمیں حل ہوجائیں۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت جنوبی پنجاب صوبہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر آنے والے دورمیں جنوبی پنجاب کا سارا ووٹ بینک پی ٹی آئی کے پلڑے میں ہی آ جائے گا۔

اس کے بعد سندھ میں بھی صوبوں کی تحریک زور پکڑ سکتی ہے کیوں کہ ماضی میں کراچی اور حیدرآباد کوملا کرنیا صوبہ بنانے اور اندرون سندھ کو الگ صوبے کا درجہ دینے کی باتیں بھی ہوچکی ہیں، جبکہ ہزارہ صوبے کی تحریک بھی ابھی تک موجودہے اورادھر گلگت بلتستان والے ابھی تک ”سرزمین بے آئین“ کا رونا رو رہے ہیں، انہیں بھی ان کا حق دینا پڑے گا۔ حکومت کیلئے صوبہ جنوبی پنجاب کا قیام آسان نہیں لیکن اس کے قیام سے بہتری بھی آئے گی اور کیا عوام کے مسائل حل ہونگے یا ان میں مزید اضافہ ہوگا، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر